وَاسْأَلْ مَنْ أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ مِن رُّسُلِنَا أَجَعَلْنَا مِن دُونِ الرَّحْمَٰنِ آلِهَةً يُعْبَدُونَ
اور ان سے پوچھ جنھیں ہم نے تجھ سے پہلے اپنے رسولوں میں سے بھیجا، کیا ہم نے رحمان کے سوا کوئی معبود بنائے ہیں، جن کی عبادت کی جائے؟
وسئل کا مطلب اکثر مفسرین نے دو طرح سے بیان کیا ہے۔ ایک یہ کہ ان انبیاء کے وارث علماء یا علمائے بنی اسرائیل سے پوچھ لیجیے۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ ان رسولوں کی کتابوں میں تلاش کر کے دیکھو کہ ان میں کہیں یہ لکھا ہے کہ ہم نے اپنے علاوہ کچھ اور بھی الٰہ بنا دئیے ہیں جن کی عبادت کی جایا کرے۔ اللہ نے کسی بھی نبی کو یہ حکم نہیں دیا۔ بلکہ اس کے برعکس تمام رسولوں نے اپنی اپنی قوم کو وہی دعوت دی جو نبی آخر الزماں اپنی امت کو دے رہے ہیں۔ کل انبیاء کی دعوت کا خلاصہ صرف اس قدر ہے کہ انھوں نے توحید پھیلائی اور شرک کو ختم کیا، جیسا کہ قرآن میں ہے کہ ہم نے ہر امت میں رسول بھیجا کہ اللہ کی عبادت کرو اور اس کے سوا اوروں کی عبادت نہ کرو۔ ایک روایت میں ہے کہ شب معراج میں سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیت المقدس میں تمام انبیاء کی امامت فرمائی ۔ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو جبرئیل علیہ السلام نے عرض کیا کہ اے سرور عالم! اپنے سے پہلے انبیاء سے دریافت فرما لیجیے کہ کیا اللہ تعالیٰ نے اپنے سوا کسی اور کی عبادت کی اجازت دی؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس سوال کی کچھ حاجت نہیں۔ (تیسیر القرآن) یعنی اس میں کوئی شک ہی نہیں کہ تمام انبیاء توحید کی دعوت دیتے آئے۔ سب نے مخلوق پرستی کی ممانعت فرمائی۔