فَإِمَّا نَذْهَبَنَّ بِكَ فَإِنَّا مِنْهُم مُّنتَقِمُونَ
پس اگر کبھی ہم تجھے لے ہی جائیں تو بے شک ہم ان سے انتقام لینے والے ہیں۔
مشرکین مکہ کا یہ خیال تھا کہ ان کی ساری پریشانیوں اور مصیبتوں کا باعث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ہے۔ یہ کانٹا اگر درمیان سے نکل جائے تو سارا معاملہ درست ہو سکتا ہے۔ اسی وجہ سے وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جان کے دشمن بنے ہوئے تھے۔ اس آیت میں اگرچہ روئے سخن رسول اللہ کی طرف ہے لیکن یہ وعید دراصل مشرکین مکہ کو سنائی جا رہی ہے۔ کہ رسول زندہ رہے یا نہ رہے، تمہیں تمہارے گناہوں کی سزا بہرحال مل کر رہے گی یہ بھی ممکن ہے کہ ایسا عذاب رسول کی زندگی میں ہی تمہیں پہنچ جائے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس کی وفات کے بعد آئے۔ لہٰذا جو کچھ تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق سوچ رہے ہو اس سے تمہاری پریشانیوں اور مصیبتوں میں اضافہ تو ہو سکتا ہے کمی نہیں ہو سکتی۔