وَقَالُوا لَوْ شَاءَ الرَّحْمَٰنُ مَا عَبَدْنَاهُم ۗ مَّا لَهُم بِذَٰلِكَ مِنْ عِلْمٍ ۖ إِنْ هُمْ إِلَّا يَخْرُصُونَ
اور انھوں نے کہا اگر رحمان چاہتا تو ہم ان کی عبادت نہ کرتے۔ انھیں اس کے بارے میں کچھ علم نہیں، وہ تو صرف اٹکلیں دوڑا رہے ہیں۔
گناہوں پر اللہ کی مشیئت کی دلیل باطل ہے: یعنی اپنے طور پر اللہ کی مشیئت کا سہارا یہ ان کی بڑی دلیل ہے۔ کیوں کہ ظاہراً یہ بات صحیح ہے کہ اللہ کی مشیئت کے بغیر کوئی کام نہیں ہو سکتا اور نہ ہوتا ہے۔ لیکن یہ اس بات سے بے خبر ہیں کہ اس کی مشیئت اس کی رضا، سے مختلف چیز ہے۔ ہر کام یقیناً اس کی مشیئت سے ہی ہوتا ہے لیکن راضی وہ انہی کاموں سے ہوتا ہے۔ جن کا اس نے حکم دیا ہے۔ نہ کہ ہر اس کام سے جو انسان اللہ کی مشیئت سے کرتا ہے۔ انسان چوری، بدکاری، ظلم اور بڑے بڑے گناہ کرتا ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو کسی کو یہ کام کرنے کی قدرت ہی نہ دے فوراً اس کا ہاتھ پکڑ لے۔ اس کے قدموں کو روک دے، اس کی نظر سلب کر لے۔ لیکن یہ جبر کی صورتیں ہیں جب کہ اس نے انسان کو ارادہ واختیار کی آزادی دی ہے۔ تاکہ اسے آزمایا جائے اس لیے اس نے دونوں قسم کے کاموں کی وضاحت کر دی ہے جن سے وہ راضی ہوتا ہے ان کی بھی اور جن سے وہ ناراض ہوتا ہے ان کی بھی، انسان دونوں قسم کے کاموں میں سے جوم کام بھی کرے گا، اللہ اس کا ہاتھ نہیں پکڑے گا، لیکن اگر وہ کام جرم و معصیت کا ہو گا تو یقیناً وہ اس سے ناراض ہو گا کہ اس نے اللہ کے دئیے ہوئے اختیار کا استعمال غلط کیا۔ تاہم یہ اختیار دنیا میں اللہ اس سے واپس نہیں لے گا۔ البتہ اس کی سزا قیامت والے دن دے گا۔