أَفَنَضْرِبُ عَنكُمُ الذِّكْرَ صَفْحًا أَن كُنتُمْ قَوْمًا مُّسْرِفِينَ
تو کیا ہم تم سے اس نصیحت کو ہٹا لیں، اعراض کرتے ہوئے، اس وجہ سے کہ تم حد سے بڑھنے والے لوگ ہو۔
حد سے گزر جانے والے لوگ: اس کے مختلف معنی کیے گئے ہیں۔ مثلاً (۱) تم چوں کہ گناہوں میں بہت زیادہ منہمک اور ان پر مصر ہو اس لیے کیا تم یہ گمان کرتے ہو کہ ہم تمہیں وعظ و نصیحت کرنا چھوڑ دیں گے (۲) یا تمہارے کفر و اسراف پر ہم تمہیں کچھ نہ کہیں گے اور تم سے درگزر کر لیں گے (۳) یا ہم تمہیں ہلاک کر دیں گے اور کسی چیز کا تمہیں حکم دیں اور نہ منع کریں۔ (۴) چونکہ تم قرآن پر ایمان لانے والے نہیں ہو اس لیے ہم انزال قرآن کا سلسلہ ہی بند کر دیں گے۔ پہلے مفہوم کو امام طبری نے اور آخری مفہوم کو امام ابن کثیر نے زیادہ پسند کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ اللہ کا لطف و کرم ہے کہ اس نے خیر اور ذکر حکیم (قرآن) کی طرف دعوت دینے کا سلسلہ موقوف نہیں فرمایا، اگرچہ وہ اعراض و انکار میں حد سے تجاوز کر رہے تھے، تاکہ جس کے لیے ہدایت مقدر ہے وہ اس کے ذریعے سے ہدایت اپنا لے اور جن کےلیے شقاوت لکھی جا چکی ہے ان پر حجت قائم ہو جائے۔