وَكَذَٰلِكَ أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ رُوحًا مِّنْ أَمْرِنَا ۚ مَا كُنتَ تَدْرِي مَا الْكِتَابُ وَلَا الْإِيمَانُ وَلَٰكِن جَعَلْنَاهُ نُورًا نَّهْدِي بِهِ مَن نَّشَاءُ مِنْ عِبَادِنَا ۚ وَإِنَّكَ لَتَهْدِي إِلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ
اور اسی طرح ہم نے تیری طرف اپنے حکم سے ایک روح کی وحی کی، تو نہیں جانتا تھا کہ کتاب کیا ہے اور نہ یہ کہ ایمان کیا ہے اور لیکن ہم نے اسے ایک ایسی روشنی بنا دیا ہے جس کے ساتھ ہم اپنے بندوں میں سے جسے چاہتے ہیں راہ دکھا تے ہیں اور بلاشبہ تو یقیناً سیدھے راستے کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو وحی کی تمام صورتوں میں وحی ہوئی: اسی طرح سے مراد یہ ہےکہ ہم نے ان تمام قسموں کی وحی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بھی کی ہے۔ القا و الہام سے متعلق سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: پہلے جو وحی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ہوئی وہ سچے خواب تھے کہ ’’جو کچھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نیند کی حالت میں دیکھتے وہ (بیداری میں) صبح کی روشنی کی طرح ظاہر ہوتا ۔‘‘ (بخاری: ۴) ایسا ہی خواب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو صلح حدیبیہ سے پیشتر آیا تھا کہ مسلمان امن و اطمینان سے کعبہ کا طواف اور عمرہ کر رہے ہیں، جس کا ذکر سورہ الفتح کی آیت نمبر ۲۷ میں موجود ہے۔ جس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ انبیا کا خواب بھی وحی ہوتا ہے۔ دوسری صورت وحی کا پردے کے پیچھے سے بات کرنا وحی کی یہ صورت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو واقعۂ معراج کے دوران پیش آئی جب کہ نمازیں فرض ہوئیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ سے کئی بار ہمکلام ہوئے تھے اور اس کا ذکر سورہ نجم کی آیت نمبر (۹،۱۰) میں موجود ہے۔ تیسری صورت جبرائیل علیہ السلام کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دل پر نازل ہونے کی ہے۔ اور قرآن سارے کا سارا اسی صورت میں نازل ہوا۔ روح سے مراد: قرآن ہے اور اس قرآن کو بذریعہ وحی ہم نے تیری طرف اُتارا ہے۔ کتاب اور ایمان کو جس تفصیل کے ساتھ ہم نے اپنی کتاب میں بیان کیا ہے۔ اس سے پہلے تو جانتا بھی نہ تھا کہ کتاب کیا چیز ہے اور ایمان کیا ہوتا ہے۔ لیکن ہم نے اس قرآن کو نور بنایا تاکہ اس کے ذریعے سے ہم اپنے ایمان دار بندوں کو راہ رست دکھلائیں۔ جیسا کہ سورہ حم سجدہ (۴۴) میں ارشاد فرمایا کہ: ﴿قُلْ هُوَ لِلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا هُدًى وَّ شِفَآءٌ﴾ کہہ دے کہ یہ ایمان والوں کے لیے ہدایت اور شفا ہے۔ اور بے ایمانوں کے کان بہرے اور آنکھیں اندھی ہیں۔ آپ یقیناً سیدھے راستے پر ہیں، اے نبی! تم صریح اور مضبوط حق کی راہنمائی کر رہے ہو۔ یعنی جو رستہ یہ قرآن دکھاتا ہے۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی راہنمائی کرتے ہیں، وہی اس اللہ کا راستہ ہے جو فرمانروائے کائنات ہے۔ اسی راہ پر چل کر انسان اللہ تک پہنچتاہے۔ اور جو اس راہ سے بھٹکا۔ تو وہ اللہ کی راہ نہیں سب شیطان کی راہیں ہیں۔