وَلَوْ بَسَطَ اللَّهُ الرِّزْقَ لِعِبَادِهِ لَبَغَوْا فِي الْأَرْضِ وَلَٰكِن يُنَزِّلُ بِقَدَرٍ مَّا يَشَاءُ ۚ إِنَّهُ بِعِبَادِهِ خَبِيرٌ بَصِيرٌ
اور اگر اللہ اپنے بندوں کے لیے رزق فراخ کردیتا تو یقیناً وہ زمین میں سرکش ہوجاتے اور لیکن وہ ایک اندازے کے ساتھ اتارتا ہے، جتنا چاہتا ہے، یقیناً وہ اپنے بندوں سے خوب باخبر، خوب دیکھنے والا ہے۔
رزق کی کمی بیشی میں اللہ کی حکمتیں: پنجابی زبان کی ایک مختصر سی مثال اس آیت کے مفہوم کو پوری طرح واضح کر دیتی ہے۔ مثال یہ ہے (رج اون تے کُداون‘‘) یعنی ایک عام دنیا دار انسان کی عادت یہ ہے کہ اگر اللہ اسے خوشحالی سے ہمکنار کرے تو وہ کسی کو بھی حتیٰ کہ اللہ کو بھی خاطر میں نہیں لاتا۔ اور سرکشی کی راہ اختیار کرتا ہے۔ یہی صورت حال سرداران قریش کی تھی جو دیہاتی قبائل عرب کی نسبت خوشحال تھے اور اسی خوشحالی نے ان کے دماغوں کوخراب کر رکھا تھا۔ اور اس آیت میں بتایا یہ گیا ہے کہ اگر اللہ سارے ہی لوگوں کو وافر رزق عطا فرما دے تو اس سے اس کے خزانوں میں تو کچھ کمی نہ آئے گی۔ لیکن لوگ دولت کی مستی میں ہر جگہ اودھم مچا دیں گے اور ایک دوسرے کا جینا بھی حرام کر دیں گے۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ ہر شخص کو اپنے اندازے اور اپنی حکمت کے مطابق رزق مہیا کرتا ہے۔ تاکہ لوگ اپنے آپے سے باہر نہ ہوں۔ اور دنیا کا نظام بھی ٹھیک طور پر چلتا رہے۔ امیر کام لینے کے لیے غریبوں کے محتاج رہیں اور غریب امیروں کے۔ ایک حدیث قدسی میں آتا ہے کہ ’’میرے بندے ایسے بھی ہیں جن کی صلاحیت مال داری میں ہی ہے۔ اگر میں انھیں فقیر بنا دوں تو وہ دین داری سے بھی جاتے رہیں گے۔ اور بعض میرے بندے ایسے بھی ہیں کہ ان کے لائق فقیری ہی ہے۔ اگر وہ مال حاصل کر لیں اور تو نگر بن جائیں تو اس حالت میں گویا ان کا دین فاسد کر دوں۔‘‘