سورة الشورى - آیت 21

أَمْ لَهُمْ شُرَكَاءُ شَرَعُوا لَهُم مِّنَ الدِّينِ مَا لَمْ يَأْذَن بِهِ اللَّهُ ۚ وَلَوْلَا كَلِمَةُ الْفَصْلِ لَقُضِيَ بَيْنَهُمْ ۗ وَإِنَّ الظَّالِمِينَ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

یا ان کے لیے کچھ ایسے شریک ہیں جنھوں نے ان کے لیے دین کا وہ طریقہ مقرر کیا ہے جس کی اللہ نے اجازت نہیں دی اور اگر فیصلہ شدہ بات نہ ہوتی تو ضرور ان کے درمیان فیصلہ کردیا جاتا اور بے شک جو ظالم ہیں ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

اللہ فرماتا ہے کہ یہ مشرکین اللہ کے دین کی پیروی تو کرتے نہیں۔ بلکہ جن شیاطین اور انسانوں کو انھوں نے اپنا بڑا سمجھ رکھا ہے۔ یہ جو احکام انہیں بتاتے ہیں انھی احکام کے مجموعے کو دین سمجھتے ہیں۔ حلال و حرام کا یقین اپنے ان بڑوں کے کہنے پر کرتے ہیں۔ انہی کے ایجاد کردہ عبادات کے طریقے استعمال کر رہے ہیں، اسی طرح مال کے احکام بھی از خود تراشیدہ ہیں۔ جنہیں شرعی سمجھ بیٹھے ہیں۔ زمانہ جاہلیت میں انھوں نے بعض چیزوں کو از خود حرام کر لیا تھا۔ مثلاً وہ جانور جس کا کان چیر کر اپنے معبودان باطل کے نام پر چھوڑ دیتے تھے۔ اور داغ دے کر سانڈ چھوڑ دیتے تھے۔ جس اونٹ سے دس بچے حاصل کر لیں اسے ان کے نام چھوڑ دیتے تھے۔ پھر انھیں ان کی تعظیم کے خیال سے اپنے اوپر حرام سمجھتے تھے۔ اور بعض چیزوں کو حلال کر لیا تھا جیسے مردار، خون اور جوا وغیرہ۔ ایک حدیث میں وارد ہے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ میں نے عمرو بن لحی کو دیکھا کہ وہ جہنم میں اپنی آنتیں گھسیٹ رہا تھا۔ یہی وہ شخص ہے جس نے سب سے پہلے غیر اللہ کے نام پر جانور کو چھوڑنا بتایا۔ (بخاری: ۳۵۲۱، مسلم: ۱۵/ ۲۸۵۶) پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر میری یہ بات پہلے سے میرے ہاں طے شدہ نہ ہوتی کہ میں گنہگاروں کو ڈھیل دوں گا تو میں آج ہی ان کفار کو اپنے عذاب میں جکڑ لیتا۔