شَرَعَ لَكُم مِّنَ الدِّينِ مَا وَصَّىٰ بِهِ نُوحًا وَالَّذِي أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ وَمَا وَصَّيْنَا بِهِ إِبْرَاهِيمَ وَمُوسَىٰ وَعِيسَىٰ ۖ أَنْ أَقِيمُوا الدِّينَ وَلَا تَتَفَرَّقُوا فِيهِ ۚ كَبُرَ عَلَى الْمُشْرِكِينَ مَا تَدْعُوهُمْ إِلَيْهِ ۚ اللَّهُ يَجْتَبِي إِلَيْهِ مَن يَشَاءُ وَيَهْدِي إِلَيْهِ مَن يُنِيبُ
اس نے تمھارے لیے دین کا وہی طریقہ مقرر کیا جس کا تاکیدی حکم اس نے نوح کو دیا اور جس کی وحی ہم نے تیری طرف کی اور جس کا تاکیدی حکم ہم نے ابراہیم اور موسیٰ اور عیسیٰ کو دیا، یہ کہ اس دین کو قائم رکھو اور اس میں جدا جدا نہ ہوجاؤ۔ مشرکوں پر وہ بات بھاری ہے جس کی طرف تو انھیں بلاتا ہے، اللہ اپنی طرف چن لیتا ہے جسے چاہتا ہے اور اپنی طرف راستہ اسے دیتا ہے جو رجوع کرے۔
’’ شَرَعَ‘‘ کا معنی ہیں، بیان کیا، واضح کیا اور مقرر کیا، لَکُمْ (تمہارے لیے) یہ اُمت محمدیہ سے خطاب ہے۔ مطلب یہ ہے کہ تمہارے لیے وہی دین مقرر یا بیان کیا ہے جس کی وصیت اس سے قبل تمام انبیا علیہم السلام کو کی جاتی رہی ہے، اس ضمن میں پانچ اولوا العزم انبیا کے نام ذکر فرمائے۔ ’’الدین‘‘ سے مراد: اللہ پر ایمان، توحید، اطاعت رسول اور شریعت الٰہیہ کو ماننا ہے۔ تمام انبیا کا یہی دین تھا جس کی دعوت وہ اپنی قوم کو دیتے رہے۔ اگرچہ ہر نبی کی شریعت میں بعض جزوی اختلافات ہوتے تھے۔ جیسا کہ سورۃ المائدہ (۴۸) میں ارشاد فرمایا کہ: ﴿لِكُلٍّ جَعَلْنَا مِنْكُمْ شِرْعَةً وَّ مِنْهَاجًا﴾ ہم نے تم میں سے ہر ایک کے لیے ایک دستور اور طریقہ بنایا، لیکن مذکورہ اصول سب کے درمیان مشترکہ تھے۔ اسی بات کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان الفاظ میں بیان فرمایا۔ (صحیح بخاری کتاب الانبیا وغیرہ میں ہے) ’’ہم انبیا کی جماعت علاتی بھائی ہیں، ہمارا دین ایک ہے۔‘‘ (بخاری: ۳۴۴۳) اور یہ ایک دین توحید و اطاعت رسول ہے۔ یعنی ان کا تعلق ان فروعی مسائل سے نہیں ہے۔ جن میں دلائل باہم مختلف یا متعارض ہوتے ہیں۔ کیوں کہ ان میں اجتہاد یا اختلاف کی گنجائش ہوتی ہے۔ اس لیے یہ مختلف ہوتے ہیں اور ہو سکتے ہیں۔ تاہم توحید و اطاعت، فروعی نہیں بلکہ اصولی مسئلہ ہے۔ جس پر کفر و ایمان کا دارومدار ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یہی توحید کی صدائیں ان مشرکوں کو ناگوار گزرتی ہیں۔ حق یہ ہے کہ ہدایت اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ جو مستحق ہدایت ہوتا ہے وہ رب کی طرف رجوع کرتا ہے۔ اور اللہ اس کا ہاتھ تھام کر ہدایت کے رستے پر لا کھڑا کرتا ہے۔ اور جو ازخود بُرے راستے کو اختیار کر لیتا ہے۔ اور صاف راہ چھوڑ دیتا ہے، اللہ بھی اس کے ماتھے پر ضلالت لکھ دیتا ہے۔