كَذَٰلِكَ يُوحِي إِلَيْكَ وَإِلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِكَ اللَّهُ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ
اسی طرح وحی کرتا ہے تیری طرف اور ان لوگوں کی طرف جو تجھ سے پہلے تھے، وہ اللہ جو سب پر غالب، کمال حکمت والا ہے۔
مکی دور میں حق و باطل کے درمیان اختلافی مسئلے بنیادی طور پر دو ہی تھے۔ ایک یہ کہ مشرکوں کے بتوں کا کائنات میں کچھ تصرف ہے یا نہیں؟ اور دوسرا یہ کہ انسان کا مر کر جی اٹھنا، پھر اپنے پروردگار کے حضور جواب دہی کے لیے پیش ہونا درست ہے یا نہیں؟ پھر ان میں ایک تیسرا مسئلہ از خود شامل ہو جاتا تھا کہ آیا حضرت محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) فی الواقع اللہ کے کا رسول ہیں یا نہیں؟ جو کچھ وہ کلام پیش کرتے ہیں فی الواقع اللہ کا کلام ہے؟ ان آیات میں ان اعتراضات کا اجمالی جواب پیش کر دیا گیا ہے۔ جو یہ ہے کہ جس طرح یہ قرآن تیری طرف نازل کیا گیا ہے۔ اسی طرح تجھ سے پہلے انبیا کے صحیفے اور کتابیں نازل کی گئیں۔ وحی اللہ کا وہ کلام ہے جو فرشتے کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبروں کے پاس بھیجتا رہا ہے یہ قرآن فی الواقع اللہ کی طرف سے نازل شدہ ہے۔ اور اس کی آیات حکمت سے لبریز ہیں کیوں کہ وہ خود حکیم ہے۔ علاوہ ازیں وہ سب پر غالب اور زبردست بھی ہے۔ وہ مخالفین کی مخالفت کے باوجود اپنے کلمہ کا بول بالا کرنے کی قوت اور قدرت بھی رکھتا ہے۔ ایک صحابی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے وحی کی کیفیت پوچھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کبھی تو یہ میرے پاس گھنٹی کی آواز کی مثل آتی ہے۔ اور یہ مجھ پر بہت سخت ہوتی ہے، جب یہ ختم ہو جاتی ہے تو مجھے یاد ہو چکی ہوتی ہے۔ اور کبھی فرشتہ انسانی شکل میں آتا ہے اور مجھ سے کلام کرتا ہے۔ اور جو وہ کہتا ہے میں یاد کر لیتا ہوں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں میں نے سخت سردی میں مشاہدہ کیا کہ جب وحی کی کیفیت ختم ہوتی تو آپ پسینے میں شرابور ہوتے اور آپ کی پیشانی سے پسینے کے قطرے گر رہے ہوتے تھے۔ (بخاری: ۲، مسلم: ۲۳۳۳)