لَّا يَسْأَمُ الْإِنسَانُ مِن دُعَاءِ الْخَيْرِ وَإِن مَّسَّهُ الشَّرُّ فَيَئُوسٌ قَنُوطٌ
انسان بھلائی مانگنے سے نہیں اکتاتا اور اگر اسے کوئی برائی آپہنچے تو بہت مایوس، نہایت ناامید ہوتا ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے انسان دنیا کا مال و اسباب، صحت و قوت، عزت و رفعت اور دیگر دنیوی نعمتوں کے مانگنے سے نہیں تھکتا، بلکہ مانگتا ہی رہتا ہے۔ وہ یہ چاہتا ہےکہ ہر طرح کی بھلائیاں میرے ہی لیے ہوں۔ رزق بھی کشادہ اور وافر ملے۔ خوشحالی اور عیش و عشرت نصیب ہو۔ تندرستی بھی ہو اور اولا دبھی اچھی ہو۔ اگر یہ سب چیزیں مہیا ہو بھی جائیں تو پھر یہ چاہتا ہے کہ ان میں ہر آن اضافہ بھی ہوتا رہے اور اس کی یہ حرص کبھی ختم ہونے کو نہیں آتی۔ حدیث میں آتا ہے عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ رسول للہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا’’ اگر آدمی کو ایک وادی بھر سونا مل جائے جب بھی (قناعت نہیں کرنے کا) دوسری وادی چاہے گا اور اگر دوسری مل جائے تو تیسری چاہے گا بات یہ ہے کہ آدمی کا پیٹ مٹی ہی بھرتی ہے۔ (بخاری: ۶۴۳۸) تکلیف میں مایوس اور شاکی: اس کی طبیعت کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ جب اسے کوئی تنگی، فاقہ یا بیماری یا اسی قسم کا کوئی دوسرا دکھ پہنچتا ہے۔ اور اسے اس تکلیف کے دور ہونے کے ظاہری اسباب نظر نہیں آتے تو اللہ کی رحمت سے مایوس ہو کر ناشکری کی باتیں کرنے لگتا ہے۔ اسے یہ نظر نہیں آتا کہ ظاہری اسباب کے علاوہ بے شمار باطنی اسباب بھی موجود ہیں جو اسے نظر نہیں آ سکتے۔ اور اللہ تعالیٰ کے قبضہ قدرت میں ہوتے ہیں اگر وہ اللہ پر بھروسہ کرنا سیکھ جائے تو یقینا اس کی یہ حالت نہ ہو۔ آسائش میں اپنی تدبیر پر ناز: اور تیسرا پہلو یہ ہے کہ اگر ہم اس کی تنگی، فاقہ یا بیماری کو دور کر دیں اور اس پر بھلے دن آ جائیں تو پھر بھی اللہ کی طرف نہیں ہوتا نہ اس کی ذات کا شکر ادا کرتا ہے۔ جس نے اس کی تکلیف کو دور کر دیا۔ بلکہ وہ سمجھتا ہے کہ یہ سب کچھ بس اس کے حسن تدبیر اور محنت کا نتیجہ ہے۔ اور اگر میرے دن پھر گئے ہیں تو میں فی الواقع اس بات کا مستحق تھا۔