إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَائِكَةُ أَلَّا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَبْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِي كُنتُمْ تُوعَدُونَ
بے شک وہ لوگ جنھوں نے کہا ہمارا رب اللہ ہے، پھر خوب قائم رہے، ان پر فرشتے اترتے ہیں کہ نہ ڈرو اور نہ غم کرو اور اس جنت کے ساتھ خوش ہوجاؤ جس کا تم وعدہ دیے جاتے تھے۔
استقامت اور اس کا انجام: یعنی جن لوگوں نے دل و جان سے توحید باری تعالیٰ کا اقرار کیا پھر تازیست اپنے اس قول و قرار کو پوری دیانتداری اور راست بازی سے نبھایا۔ اللہ تعالیٰ کی ربوبیت و الوہیت میں کسی کو شریک نہیں کیا اور نہ گرگٹ کی طرح رنگ بدلتے رہے۔ جو کچھ زبان سے کہا اس کے تقاضوں کو عمل و اعتقاد سے پورا کیا، جو عمل کیا خالص اس کی خوشنودی اور شکر گزاری کے لیے کیا۔ اپنے رب کے مقرر کردہ حقوق و فرائض کو سمجھا اور ادا کیا ایسے لوگوں پر اللہ کی طرف سے جنت کی خوشخبری دینے والے فرشتے نازل ہوتے ہیں۔ دین کی تفہیم مختصر ترین الفاظ میں: یہ ایک ایسا جملہ ہے جس میں شریعت کی ساری تعلیم سمٹ کر آ گئی ہے چنانچہ سفیان ثقفی کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ: ’’ مجھے اسلام کے متعلق ایک ایسی بات بتا دیجیے جس کے بعد مجھے کسی سے کچھ پوچھنے کی ضرورت نہ پڑے۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ کہو میں اللہ پر ایمان لایا۔ پھر اس پر ڈٹ جاؤ۔‘‘ (مسلم: ۳۸) فرشتوں کا نزول: ان کے پاس ان کی موت کے وقت فرشتے آتے ہیں اور انہیں بشارتیں سناتے ہیں کہ اب تم آخرت کی منزل کی طرف جا رہے ہو۔ بے خوف رہو، تم پر وہاں کوئی کھٹکا نہیں۔ تم اپنے پیچھے جو دنیا چھوڑے جا رہے ہو۔ اس پر بھی کوئی غم و رنج نہ کرو۔ تمہارے اہل و عیال، مال و متاع، دین و دیانت کی حفاظت ہمارے ذمے ہے، ہم تمہارے خلیفہ ہیں۔ تمہیں ہم خوش خبری سناتے ہیں کہ تم جنتی ہو۔ تمہیں سچا اور صحیح وعدہ دیا گیا تھا۔ وہ پورا ہو کر رہے گا۔ پس وہ اپنے انتقال کے وقت خوش خوش جاتے ہیں کہ تمام برائیوں سے بچ گئے اور تمام بھلائیاں حاصل ہوگئیں۔ ایک حدیث میں وارد ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ’’مومن کی روح سے فرشتے کہتے ہیں، اے پاک روح جو پاک جسم میں تھی، چل اللہ کی بخشش اور انعام اور اس کی نعمت کی طرف چل، اس اللہ کے پاس جو تجھ سے ناراض نہیں۔(احمد: ۴/ ۲۸۷)