وَمَا يَسْتَوِي الْأَعْمَىٰ وَالْبَصِيرُ وَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَلَا الْمُسِيءُ ۚ قَلِيلًا مَّا تَتَذَكَّرُونَ
اور نہ اندھا اور دیکھنے والا برابر ہوتا ہے اور نہ وہ لوگ جو ایمان لائے اور انھوں نے نیک اعمال کیے اور نہ وہ جو برائی کرنے والا ہے، بہت کم تم نصیحت حاصل کرتے ہو۔
ایک دیندار اور متقی کے کردار کا موازنہ: یہ حیات بعد الموت پر دوسری دلیل ہے۔ یعنی ایک شخص اپنا تمام طرز زندگی وحی الٰہی کی روشنی میں استوار کرتا ہے، اللہ کے کلمہ کو بلند کرنے کے لیے ہر طرح کے مصائب برداشت کرنے کے لیے تیار ہو جاتا ہے اپنی خواہشات پر پابندیاں عائد کر کے حکم الٰہی کے مطابق زندگی بسر کرتا ہے کہ کسی کو فریب دیتا ہے نہ زیادتی کرتا ہے۔ اور ایک شریف انسان کی طرح اللہ سے ڈرتے ہوئے محتاط زندگی گزار رہا ہے۔ دوسرا وہ شخص ہے جس کے پاس تقلید آبا اور جہالت کی تاریکیوں کے سوا کچھ نہیں۔ جو لوگوں کے حقوق پر ڈاکہ ڈالتا ہے۔ اس کی زندگی کا اصول مفاد پرستی ہوتا ہے۔ حصولِ دولت اور عیش پرستی اس کا مطمع نظر ہوتا ہے تو کیا ان دونوں کا انجام ایک جیسا ہونا چاہیے۔ نہ نیک انسان کو اس کے اچھے اعمال کا بدلہ ملے اور نہ بد کردار لوگوں کو ان کے کرتوتوں کی سزا ملے؟ اگر دونوں کا انجام ایک جیسا نہ ہونا چاہیے تو پھر ضروری ہے کہ انسان کو دوسری زندگی دی جائے۔ جس میں اس کے اچھے یا برے اعمال کا بدلہ دیا جا سکے۔