رَفِيعُ الدَّرَجَاتِ ذُو الْعَرْشِ يُلْقِي الرُّوحَ مِنْ أَمْرِهِ عَلَىٰ مَن يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ لِيُنذِرَ يَوْمَ التَّلَاقِ
وہ بہت بلند درجوں والا، عرش کا مالک ہے، اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے اپنے حکم سے وحی اتارتا ہے، تاکہ ملاقات کے دن سے ڈرائے۔
اللہ تعالیٰ اپنی کبریائی اور عظمت اور اپنے عرش کی بڑائی اور وسعت بیان فرماتا ہے جو تمام مخلوق پر مثل چھت کے چھایا ہوا ہے۔ روح: روح سے مراد وہی ہے جیسا کہ قرآن مجید سورہ الشوریٰ (۵۲) میں ہے۔ ﴿وَ كَذٰلِكَ اَوْحَيْنَا اِلَيْكَ رُوْحًا مِّنْ اَمْرِنَا﴾ ’’ اسی طرح ہم نے آپ کی طرف اپنے حکم سے وحی کی، اس سے پہلے آپ کو علم نہیں تھا کہ ’’ کتاب کیا ہے اور ایمان کیاہے۔‘‘ جس طرح اللہ تعالیٰ نے سورہ انعام (۱۲۴) میں ارشاد فرمایا: ﴿اَللّٰهُ اَعْلَمُ حَيْثُ يَجْعَلُ رِسَالَتَهٗ﴾ ’’اللہ خوب جانتا ہے کہ وہ کہاں پر اپنی رسالت رکھے۔ یہاں بھی فرمایا کہ وہ اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے وحی نازل فرماتا ہے تاکہ وہ ملاقات کے دن سے ڈرائے۔ وحی کو روح سے اس لیے تعبیر فرمایا کہ جس طرح روح میں انسانی زندگی کی بقا و سلامتی کا راز مضمر ہے۔ اسی طرح وحی سے بھی انسانی قلوب میں زندگی کی لہر دوڑ جاتی ہے۔ جو پہلے کفر و شرک کی وجہ سے مردہ ہوتے ہیں۔