وَسِيقَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِلَىٰ جَهَنَّمَ زُمَرًا ۖ حَتَّىٰ إِذَا جَاءُوهَا فُتِحَتْ أَبْوَابُهَا وَقَالَ لَهُمْ خَزَنَتُهَا أَلَمْ يَأْتِكُمْ رُسُلٌ مِّنكُمْ يَتْلُونَ عَلَيْكُمْ آيَاتِ رَبِّكُمْ وَيُنذِرُونَكُمْ لِقَاءَ يَوْمِكُمْ هَٰذَا ۚ قَالُوا بَلَىٰ وَلَٰكِنْ حَقَّتْ كَلِمَةُ الْعَذَابِ عَلَى الْكَافِرِينَ
اور وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا گروہ در گروہ جہنم کی طرف ہانکے جائیں گے، یہاں تک کہ جب وہ اس کے پاس آئیں گے تو اس کے دروازے کھولے جائیں گے اور اس کے نگران ان سے کہیں گے کیا تمھارے پاس تم میں سے کچھ رسول نہیں آئے جو تم پر تمھارے رب کی آیات پڑھتے ہوں اور تمھیں تمھارے اس دن کی ملاقات سے ڈراتے ہوں؟ کہیں گے کیوں نہیں، اور لیکن عذاب کی بات کافروں پر ثابت ہوگئی۔
کفار کی آخری منزل: زمر بمعنی آواز، ہر گروہ یا جماعت میں شور اور آوازیں ضرور ہوتی ہیں۔ اسی لیے یہ جماعت اور گروہ کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ کافروں کو جہنم کی طرف گروہوں کی شکل میں لے جایا جائے گا۔ ایک گروہ کےپیچھے ایک گروہ، علاوہ ازیں انھیں جہنم کی طرف گروہوں کی شکل میں لے جایا جائے گا۔ انھیں جہنم کی طرف سختی سے دھکیلا جائے گا۔ اور ان کے پہنچتے ہی فوراً جہنم کے ساتوں دروازے کھول دئیے جائیں گے تاکہ سزا میں تاخیر نہ ہو۔ کیا تمہارے پاس رسول نہیں آئے تھے: پھر انھیں محافظ فرشتے شرمندہ کرنے کے لیے اور ندامت بڑھانے کے لیے، ڈانٹ اور جھڑک کر کہیں گے کہ کیا تمہارے پاس تمہاری ہی جنس کے اللہ کے رسول نہیں آئے تھے؟ انہوں نے اللہ کی آیتیں تمہیں پڑھ کر سنائیں۔ اپنے لائے ہوئے سچے دین کی دلیلیں قائم کر دیں۔ تمہیں اس دن کے عذابوں سے ڈرایا۔ کافر اقرار کریں گے۔ کہ ہاں یہ سچ ہے۔ اللہ کے پیغمبر بیشک ہم میں آئے۔ انہوں نے دلیلیں بھی قائم کیں۔ لیکن ہم نے ان کی ایک نہ مانی۔ بلکہ ان کے خلاف کیا ان کا مقابلہ کیا ہماری قسمت میں ہی شقاوت تھی جس کے ہم مستحق تھے ہم نے حق سے گریز کر کے باطل کو اختیار کیا۔ یعنی اپنے آپ کو ملامت کرنے لگیں گے اپنے گناہ کا خود اقرار کریں گے۔