وَمَا قَدَرُوا اللَّهَ حَقَّ قَدْرِهِ وَالْأَرْضُ جَمِيعًا قَبْضَتُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَالسَّمَاوَاتُ مَطْوِيَّاتٌ بِيَمِينِهِ ۚ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَىٰ عَمَّا يُشْرِكُونَ
اور انھوں نے اللہ کی قدر نہیں کی جو اس کی قدر کا حق ہے، حالانکہ زمین ساری قیامت کے دن اس کی مٹھی میں ہوگی اور آسمان اس کے دائیں ہاتھ میں لپیٹے ہوئے ہوں گے۔ وہ پاک ہے اور بہت بلند ہے اس سے جو وہ شریک بنا رہے ہیں۔
جن مشرکوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتوں کو سجدہ کرنے کا مشورہ دیا تھا ان کم بختوں نے یہ سمجھا ہی نہیں کہ اللہ تعالیٰ کا مقام کس قدر ارفع و اعلیٰ ہے۔ اس سے بڑھ کر عزت والا، اس سے زیادہ بادشاہت والا، اس سے بڑھ کر غلبے اور قدرت والا کوئی نہیں، اور نہ کوئی اس کا ہمسر اور برابری کرنے والاہے۔ اگر انھیں اللہ کی عظمت کا اندازہ ہوتا تو ایسی نادانی کی بات کبھی نہ کہتے۔ قیامت کے دن اللہ کا دنیا کے بادشاہوں سے خطاب: اللہ تعالیٰ کی عظمت و کبریائی اور پوری کائنات پر کلی تصرف کا یہ حال ہے کہ اس کائنات کی ہر چیز اس کے ہاتھ میں بالکل بے بس ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ: سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا کہ اللہ تعالیٰ (قیامت کے دن) زمین کو ایک مٹھی میں لے لے گا اور آسمانوں کو اپنے داہنے ہاتھ میں لپیٹ لے گا۔ پھر فرمائے گا ’’ میں بادشاہ ہوں (آج) زمین کے بادشاہ کہاں ہیں؟ (بخاری: ۴۸۱۲) سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ یہودیوں کا ایک عالم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا (محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہم اپنی محمد! ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ہم اپنی کتابوں میں یہ (لکھا ہوا) پاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ (قیامت کے دن) آسمانوں کو ایک انگلی پر، زمینوں کو ایک انگلی پر، درختوں کو ایک انگلی پر، پانی اور تری کو ایک انگلی پر اور تمام مخلوقات کو ایک انگلی پر رکھ لے گا اور فرمائے گا۔ ’’ میں بادشاہ ہوں۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسکرا کر اس کی تصدیق فرمائی اور آیت ’’و ما قدرو اللہ‘‘ تا آخر تک کی تلاوت فرمائی۔(بخاری: ۴۸۱۱، مسلم: ۲۷۸۶) گویا مشرکوں کے سب معبود بھی اللہ تعالیٰ کی مٹھی میں ہوں گے جنہیں آج یہ اللہ کا ہمسر قرار دے رہے ہیں۔