وَإِذَا مَسَّ الْإِنسَانَ ضُرٌّ دَعَا رَبَّهُ مُنِيبًا إِلَيْهِ ثُمَّ إِذَا خَوَّلَهُ نِعْمَةً مِّنْهُ نَسِيَ مَا كَانَ يَدْعُو إِلَيْهِ مِن قَبْلُ وَجَعَلَ لِلَّهِ أَندَادًا لِّيُضِلَّ عَن سَبِيلِهِ ۚ قُلْ تَمَتَّعْ بِكُفْرِكَ قَلِيلًا ۖ إِنَّكَ مِنْ أَصْحَابِ النَّارِ
اور جب انسان کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو وہ اپنے رب کو پکارتا ہے، اس حال میں کہ اس کی طرف رجوع کرنے والا ہوتا ہے۔ پھر جب وہ اسے اپنی طرف سے کوئی نعمت عطا کرتا ہے تو وہ اس (مصیبت) کو بھول جاتا ہے، جس کی جانب وہ اس سے پہلے پکارا کرتا تھا اور اللہ کے لیے کئی شریک بنا لیتا ہے، تاکہ اس کے راستے سے گمراہ کردے۔ کہہ دے اپنی ناشکری سے تھوڑا سا فائدہ اٹھا لے، یقیناً تو آگ والوں میں سے ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ انسان کو دیکھو کہ اپنی حاجت کے وقت تو بہت ہی عاجزی اور انکساری سے اللہ کو پکارتا ہے اور اس سے فریاد کرتا رہتا ہے جیسا کہ سورہ بنی اسرائیل (۶۷) میں ہے کہ: ﴿وَ اِذَا مَسَّكُمُ الضُّرُّ فِي الْبَحْرِ ﴾ ’’جب دریا اور سمندر میں ہوتے ہیں اور وہاں کوئی آفت آتی دیکھتے ہیں تو جن جن کو اللہ کے سوا پکارتے تھے سب کو بھول جاتے ہیں اور خالص اللہ کو پکارنے لگتے ہیں۔ لیکن نجات پاتے ہی منہ پھیر لیتے ہیں انسان ہے ہی ناشکرا۔‘‘ یعنی جہاں دکھ درد ٹل گیا تو پھر ایسا ہو جاتا ہے۔ گویا مصیبت کے وقت اس نے ہمیں پکارا ہی نہ تھا۔ اس دعا و گریہ زاری کو بالکل فراموش کر جاتا ہے۔ جیسا کہ سورہ یونس (۱۲) میں فرمایا کہ: ﴿وَ اِذَا مَسَّ الْاِنْسَانَ الضُّرُّ دَعَانَا﴾ ’’تکلیف کے وقت تو انسان ہمیں اٹھتے بیٹھتے، لیٹتے ہر وقت بڑی حضور قلبی سے پکارتا رہتا ہے لیکن اس تکلیف کے ہٹتے ہی وہ بھی ہم سے ہٹ جاتا ہے گویا اس نے دکھ درد کے وقت ہمیں پکارا ہی نہ تھا۔ بلکہ عافیت کے وقت اللہ کے ساتھ شریک کرنے لگتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’ کہ ایسے لوگ اپنے کفر میں گو کچھ یونہی سا فائدہ اٹھا لیں۔ سورہ لقمان (۲۴) میں فرمایا: ﴿نُمَتِّعُهُمْ قَلِيْلًا ثُمَّ نَضْطَرُّهُمْ اِلٰى عَذَابٍ غَلِيْظٍ﴾ ہم انھیں کچھ فائدہ دیں گے پھر سخت عذابوں کی طرف لے جا کر بے بس کر دیں گے۔