قُلْ مَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ وَمَا أَنَا مِنَ الْمُتَكَلِّفِينَ
کہہ دے میں تم سے اس پر کوئی اجرت نہیں مانگتا اور نہ میں بناوٹ کرنے والوں سے ہوں۔
اس مقام پر اللہ تعالیٰ نے کفار مکہ کو مخاطب کرتے ہوئے یہ قصہ آدم و ابلیس اس لیے سنایا کہ وہ سوچ لیں کہ اللہ کی نافرمانی کرنے پر ابلیس کا کیا حشر ہوا اور اب وہ جو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کر رہے ہیں۔ تو وہ بھی اپنے لیے ایسے ہی انجام کی اُمید رکھیں۔ بے لوث تبلیغ: یعنی میں بالکل بے لوث ہو کر تمہیں اللہ کا پیغام پہنچا رہا ہوں اس کا نہ تم سے کوئی صلہ مانگتا ہوں اور نہ میری کوئی ذاتی غرض ہی اس سے وابستہ ہے۔ اور نہ میں ان لوگوں میں سے ہوں کہ اپنی بڑائی قائم کر نے کے لیے جھوٹے دعوے لے کر کھڑے ہوتے ہیں اور اس بات پر شہادت میری تمام سابقہ زندگی ہے جسے تم خوب جانتے ہو۔ سیدنا انس بیان کرتے ہیں کہ ہم سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے پاس تھے کہ انھوں نے فرمایا کہ ہمیں تکلف اختیار کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ (بخاری: ۷۲۹۳) لا علمی کا اعتراف بھی عالم ہونے کی دلیل ہے: حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں لوگو! جو شخص کوئی بات جانتا ہو تو اسے بیان کرے اور اگر نہ جانتا ہو تو کہہ دے کہ ’’ اللہ ہی بہتر جانتا ہے‘‘ کیوں کہ ایسا کہنا بھی کمال علم کی دلیل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا: کہ میں (تبلیغ پر) تم سے کوئی مزدوری نہیں مانگتا اور نہ میں دل سے ہی باتیں بنانے والوں میں سے ہوں۔ (بخاری: ۴۸۰۹۔ مسلم: ۲۷۹۸)