قَالَ لَقَدْ ظَلَمَكَ بِسُؤَالِ نَعْجَتِكَ إِلَىٰ نِعَاجِهِ ۖ وَإِنَّ كَثِيرًا مِّنَ الْخُلَطَاءِ لَيَبْغِي بَعْضُهُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَقَلِيلٌ مَّا هُمْ ۗ وَظَنَّ دَاوُودُ أَنَّمَا فَتَنَّاهُ فَاسْتَغْفَرَ رَبَّهُ وَخَرَّ رَاكِعًا وَأَنَابَ ۩
اس نے کہا بلاشبہ یقیناً اس نے تیری دنبی کو اپنی دنبیوں کے ساتھ ملانے کے مطالبے کے ساتھ تجھ پر ظلم کیا ہے اور بے شک بہت سے شریک یقیناً ان کا بعض بعض پر زیادتی کرتا ہے، مگر وہ لوگ جو ایمان لائے اور انھوں نے نیک اعمال کیے اور یہ لوگ بہت ہی کم ہیں۔ اور داؤد نے یقین کرلیا کہ بے شک ہم نے اس کی آزمائش ہی کی ہے تو اس نے اپنے رب سے بخشش مانگی اور رکوع کرتا ہوا نیچے گرگیا اور اس نے رجوع کیا۔
خلیط کے معنی جزوی شریک کار ہیں۔ یعنی ایسی کاروباری شراکت جس میں شریک کام کاج کے کچھ پہلوؤں میں تو آپس میں شریک ہوں اور کچھ پہلوؤں میں آزاد ہوں مثلاً دو آدمیوں کے پاس اپنے اپنے ریوڑ ہیں جو ان کی اپنی اپنی ملکیت ہیں۔ لیکن ان کی حفاظت کے لیے جگہ مشترکہ طور پر کرایہ پر لے رکھی ہے۔ اور دونوں چرواہے کو مل کر کرایہ ادا کرتے ہیں تو ایسے شریک ایک دوسرے کے خلیط ہوتے ہیں۔ داودٔ علیہ السلام کا جواب: فرمایا کہ انسانوں میں ایسی کوتاہی عام ہے کہ ایک شریک دوسرے پر زیادتی کرتا ہے کہ دوسرے کا حصہ بھی خود ہی ہڑپ کر جاتے ہیں۔ البتہ اس اخلاقی کوتاہی سے اہل ایمان محفوظ ہیں کیوں کہ ان کے دلوں میں اللہ کا خوف ہوتا ہے اور عمل صالح کے وہ پابند ہوتے ہیں۔ اس لیے کسی کا مال ہڑپ کرنا اور دوسروں پر زیادتی کرنے کی سعی کرنا، ان کے مزاج میں شامل نہیں ہوتا وہ تو دینے والے ہوتے ہیں لینے والے نہیں۔ تا ہم ایسے بلند کردار لوگ تھوڑے ہی ہوتے ہیں۔ سیدنا داؤد کی آزمائش کیا تھی: جب فریقین مقدمہ آپ علیہ السلام کا یہ فیصلہ سنتے ہی رخصت ہو گئے اور انھوں نے اس فیصلہ کے نفاذ کا بھی مطالبہ نہ کیا۔ تو سیدنا داؤد علیہ السلام شش و پنج میں پڑ گئے۔ سوچنے پر انھیں خیال آیا کہ یہ مقدمہ ان فریقین کا نہ تھا۔ اور یہ دونوں تنبیہ کے طور پر آئے تھے اور اللہ تعالیٰ نے خود سیدنا داؤد علیہ السلام کو ایک آزمائش میں ڈال دیا تھا۔ اس خیال کہ آتے ہی انھوں نے اپنے پروردگار سے معافی مانگنی شروع کر دی، اور سجدہ میں گر پڑے۔ مفسرین نے یہاں ایک قصہ بیان کیا ہے۔ لیکن اس کا اکثر حصہ بنی اسرائیل کی روایتوں سے لیا گیا ہے۔ حدیث سے ثابت نہیں پس اولیٰ یہ ہے کہ قرآن میں جو ہے اور جس پر یہ شامل ہے وہ حق ہے۔ بعض مفسرین نے اسرائیلی روایات کو بنیاد بنا کر ایسی باتیں بھی لکھ دی ہیں، جو ایک نبی کی شان سے فروتر ہیں۔ امام ابن کثیر نے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ جب قرآن و حدیث اس معاملہ میں خاموش ہیں تو ہمیں بھی اس کی تفصیلات کی کرید کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ مفسرین کا ایک تیسرا گروہ ہے جو اس واقعہ کی جزئیات اور تفصیلات بیان کرتا ہے تاکہ قرآن کے اجمال کی کچھ توضیح ہو جائے۔ تاہم یہ کسی ایک بیان پر متفق نہیں ہیں۔ بعض کہتے ہیں کہ حضرت داؤد علیہ السلام نے ایک فوجی کو حکم دیا تھا کہ وہ اپنی بیوی کو طلاق دے دے اور یہ اس زمانے کے عرف میں معیوب بات نہیں تھی۔ حضرت داؤد علیہ السلام کو اس عورت کی خوبیوں اور کمالات کا علم ہوا تھا۔ جس کی بنا پر ان کے اندر یہ خواہش پیدا ہوئی کہ اس عورت کو تو ملکہ ہونا چاہیے نہ کہ ایک عام عورت تاکہ اس کی خوبیوں اور کمالات سے پورا ملک فیض یاب ہو۔ یہ خواہش کتنے ہی اچھے جذبے کی بنیاد پر ہو۔ لیکن ایک تو متعدد بیویوں کی موجودگی میں یہ نا مناسب سی بات لگتی ہے دوسرے بادشاہ وقت کی طرف سے اس کے اظہار میں جبر کا پہلو بھی شامل ہو جاتا ہے۔ اس لیے حضرت داؤد علیہ السلام کو ایک تمثیلی واقعے سے اس کے نا مناسب ہونے کا احساس دلایا گیا اور انھیں فی الواقع اس پر تنبیہ بھی ہو گئی۔ بعض کہتے ہیں کہ آنے والے یہ دو شخص فرشتے تھے جو ایک فرضی مقدمہ لے کر حاضر ہوئے تھے۔ داؤد علیہ السلام سے کوتاہی یہ ہوئی کہ مدعی کا بیان سن کر ہی اپنے رائے کا اظہار کر دیا اور مدعا علیہ کی بات سننے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی۔ اللہ تعالیٰ نے رفع درجات کے لیے انھیں اس آزمائش میں ڈالا۔ اس غلطی کا احساس ہوتے ہی وہ سمجھ گئے کہ یہ آزمائش تھی جو اللہ کی طرف سے ان پر آئی۔ اور بارگاہ الٰہی میں جھک گئے۔ بعض کہتے ہیں کہ آنے والے فرشتے نہیں تھے۔ انسان ہی تھے اور یہ فرضی واقعہ نہیں بلکہ ایک حقیقی جھگڑا تھا۔ جس کے فیصلے کے لیے وہ آئے تھے اور اس طرح ان کے صبر و تحمل کا امتحان لیا گیا۔ کیوں کہ اس واقع میں ناگواری اور اشتعال طبع کے کئی پہلو تھے، ایک تو بلا اجازت دیوار پھاند کر اندر آنا۔ دوسرا عبادت کے مخصوص اوقات میں آ کر مخل ہونا۔ تیسرا ان کا طرز تکلم بھی آپ کی شانِ حاکمانہ سے فروتر تھا۔ (کہ زیادتی نہ کرنا وغیرہ کے الفاظ) لیکن اللہ نے آپ کو توفیق دی کہ مشتعل نہیں ہوئے اور کمال صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا۔ لیکن دل میں جو طبعی ناگواری کا ہلکا سا احساس بھی پیدا ہوا اس کو بھی اپنی کوتاہی پر محمول کیا۔ یعنی یہ اللہ کی طرف سے آزمائش تھی۔ اس لیے یہ طبعی انقباض بھی نہیں ہونا چاہیے تھا۔ جس پر انھوں نے توبہ و استغفار کا اہتمام کیا۔ سجدہ : اس آیت پر سجدہ ہے یعنی جس طرح حضرت داؤد علیہ السلام اللہ کے حضور رجوع ہو گئے تھے عام مسلمانوں کو بھی اس کام میں ان کا ساتھ دینا چاہیے البتہ ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ سورہ ص کا سجدہ تاکیدی سجدوں میں سے نہیں اور میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس میں سجدہ کرتے دیکھا ہے۔ (بخاری: ۳۴۲۲)