سورة آل عمران - آیت 97

فِيهِ آيَاتٌ بَيِّنَاتٌ مَّقَامُ إِبْرَاهِيمَ ۖ وَمَن دَخَلَهُ كَانَ آمِنًا ۗ وَلِلَّهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلًا ۚ وَمَن كَفَرَ فَإِنَّ اللَّهَ غَنِيٌّ عَنِ الْعَالَمِينَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اس میں واضح نشانیاں ہیں، ابراہیم کے کھڑے ہونے کی جگہ اور جو کوئی اس میں داخل ہوا امن والا ہوگیا اور اللہ کے لیے لوگوں پر اس گھر کا حج (فرض) ہے، جو اس کی طرف راستے کی طاقت رکھے اور جس نے کفر کیا تو بے شک اللہ تمام جہانوں سے بہت بے پروا ہے۔

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

روشن نشانیوں سے مراد: جیسے چاہ زمزم، حجر اسود، مقام ابراہیم، صفا و مروہ اور مامون ہونا وغیرہ کہ ایامِ حج کے چار مہینے امن مل جاتا ہے، اس میں قتال، خونریزی حرام ہے جبکہ حرم میں شکار حتیٰ کہ حرم کے درخت تک کاٹنا ممنوع ہے۔ اصحاب فیل کا واقعہ بھی ایک روشن نشانی ہے، پھر دنیا بھر کے مسلما ن وہاں جاکر چاہِ زمزم کا پانی استعمال کرتے اور اپنے گھروں میں بھی لاتے ہیں مگر یہ چشمہ کا پانی ختم ہونے میں نہیں آتا ۔ مقام ابراہیم وہ پتھر ہے جس پر کھڑے ہوکر حضرت ابراہیم اللہ کے گھر کی دیواریں بلند کرتے رہے اور آپ کے پا ؤں کے نشان اس پر بن گئے تھے۔ حجر اسود جنت کا پتھر ہے۔ اصحاب فیل: جب ابرہہ نے کعبہ کو تباہ کر دینے کے لیے مکہ پر حملہ کیا تھا توچھوٹے چھوٹے پرندوں (ابابیلوں)کے لشکر نے ان ہاتھیوں والی فوج کا جس طرح ستیاناس کردیا تھا اسے سب لوگ دیکھ چکے تھے، رب تعالیٰ نے مکہ اور اہل مکہ کے لےے رزق رسانی کا ایسا بہترین نظام کردیا کہ ہر طرف سے ہر قسم کے پھل اور غلے معجزانہ طور پر کھنچے چلے آتے ہیں۔ حج کیا ہے؟ یہ ایک انسانی، روحانی اجتماع ہے، حج اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں پر حق اور اسلام کا پانچواں رکن ہے جس کو استطاعت ہو وہ اللہ کے گھر ضرور جائے، یہ نہایت با مقصد اجتماع ہے، حج کے ذریعے اللہ سے خاص رابطہ قائم ہوتا ہے، حج ادا کرنے کے لیے صحت، مالی وسعت، سفر خرچ موجود ہونا ضروری ہے، راستہ پُرامن ہو، حج: زند گی میں ایک مرتبہ فرض ہے جو پہلے حج کرچکا ہو وہ کسی دوسرے کا حج کرسکتا ہے، قرض اٹھا کر یا مانگ کر حج کرنا ضروری نہیں اسی طرح سواری مہیا ہونے کے باوجود پیدل سفر حج کرنا کوئی نیکی کا کام نہیں، اگر کسی نے ایسی نذر مانی ہو تو اسے نذر توڑ کر درست کام کرنا چاہیے۔ حج صاحب استطاعت کے لیے فرض ہے پھر جو شخص استطاعت کے باوجود جان بوجھ کر ارادہ نہ کرئے اور اس سے غافل رہے تو ایسے شخص کے لیے قرآن و حدیث میں بڑے سخت الفاظ وارد ہوئے ہیں ایک روایت میں ہے کہ اللہ کو کچھ پرواہ نہیں کہ ایسا شخص یہودی ہوکر مرے یا نصرانی ہوکر۔ (ترمذی: ۸۱۲) (۲) رسول اللہ نے فرمایا: جس شخص نے اللہ کے لیے اس شان کے ساتھ حج کیا، جس میں اس نے کوئی فحش بات نہ کی نہ نافرمانی کا کام کیا وہ اس دن کی طرح لوٹے گا جس دن اس کی ماں نے اُسے جنم دیا تھا۔ (بخاری: ۱۵۲۱، مسلم: ۱۳۵۰) حج کا ارادہ جلدی کرنا اور پورا کرلینا چاہیے۔ مقاصد حج: ہر سال پوری دنیا سے لوگ حج کرنے آتے ہیں۔ یہ ایک اسلامی اجتماع ہے جس میں لوگ اللہ کے لیے جمع ہوتے ہیں، یہ اللہ کے گھر کا بلاوا ہے۔ دعوت قبول کرنے والا خوش نصیب ہے اسباب اللہ پیدا کرتا ہے۔ جو حج سے انکار کرتا ہے تو اللہ کو اس کے حج کی ضرورت نہیں۔