وَلَقَدْ نَادَانَا نُوحٌ فَلَنِعْمَ الْمُجِيبُونَ
اور بلاشبہ یقیناً نوح نے ہمیں پکارا تو یقیناً ہم اچھے قبول کرنے والے ہیں۔
نوح علیہ السلام کی بد دعا اور اس کی قبولیت: سیدنا نوح علیہ السلام نے ساڑھے نو سو سال تبلیغ کی۔ ان کو دلائل سے سمجھایا۔ اور مختلف پیرایوں سے سمجھانے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔ مگر ان لوگوں نے ایک نہ مانی۔ الٹا ان کا مذاق اڑاتے رہے اور ایذائیں پہنچاتے رہے۔ اس طویل عرصہ میں معدودے چند آدمی آپ پر ایمان لائے۔ پھر جب آپ قطعی طور پر اپنی قوم سے مایوس ہو گئے تو آپ نے اللہ کے حضور فریاد کی کہ یا اللہ! ﴿فَدَعَا رَبَّهٗ اَنِّيْ مَغْلُوْبٌ فَانْتَصِرْ﴾ (القمر: ۱۰) مجھے ان لوگوں نے دبا لیا ہے۔ اب تو ہی ان سے بدلہ لے اور مجھے ان ظالموں سے نجات دے چنانچہ ہم نے ان کی فریاد سنی تو ان کی فریاد رسی کر دی۔ انھیں ظالموں سے نجات دے دی۔ اور ان کی قوم کو طوفان بھیج کر ہلاک کر دیا۔ کیوں کہ یہ بات ہمارے ذمہ ہے کہ حق و باطل کے معرکہ میں ہم ایمان داروں کی فریاد رسی کیا کرتے ہیں اور انھیں ظالموں سے بچا لیتے ہیں۔