إِنَّهَا شَجَرَةٌ تَخْرُجُ فِي أَصْلِ الْجَحِيمِ
بے شک وہ ایسا درخت ہے جو بھڑکتی ہوئی آگ کی تہ میں اگتا ہے۔
زقوم (تھوہر) کا درخت: جس کے معنی بدبودار اور کریہہ چیز کے نگلنے کے ہیں۔ اہل جنت کی خوراک لذیذ پھل تھے اور اہل دوزخ کی خوراک تھوہر کا درخت ہو گا۔ جس کے پتے چوڑے اور خاردار ہوتے ہیں۔ بُوناگوار اور ذائقہ کڑوا ہوتا ہے۔ اور اس میں سے جو سفید قسم کا سیال مادہ یا دودھ نکلتا ہے وہ اگر انسان کے جسم پر لگ جائے تو ورم ہو جاتا ہے۔ ظالموں کے لیے آزمائش ہے: سورہ واقعہ (۵۲) میں ارشاد ہے، ہم نے اسے ظالموں کے لیے فتنہ بنایا۔ حضرت قتادہ فرماتے ہیں شجرۂ زقوم کا ذکر گمراہوں کے لیے فتنہ بن گیا۔ وہ کہنے لگے لو اور سنو، آگ میں اور درخت؟ آگ تو درخت جلا دینے والی ہے۔ جب یہ آیت نازل ہوئی تو کافروں نے خوب مذاق اڑایا کہ بھلا آگ میں درخت کیسے پیدا ہو سکتا اور برقرار رہ سکتا ہے۔ ابوجہل ملعون اس پر ہنسی اُڑاتا تھا اور کہتا تھا میں تو خوب مزے سے کھجور، مکھن کھاؤں گا۔ اسی کا نام زقوم ہے۔(تفسیر طبری :۲۰/۵۳) الغرض یہ بھی ایک امتحان ہے بھلے لوگ تو ڈر گئے اور بروں نے اس کا مذاق اڑایا۔