لَن تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّىٰ تُنفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ ۚ وَمَا تُنفِقُوا مِن شَيْءٍ فَإِنَّ اللَّهَ بِهِ عَلِيمٌ
تم پوری نیکی ہرگز حاصل نہیں کرو گے، یہاں تک کہ اس میں سے کچھ خرچ کرو جس سے تم محبت رکھتے ہو اور تم جو چیز بھی خرچ کرو گے تو بے شک اللہ اسے خوب جاننے والاہے۔
اگرچہ سابقہ مضمون یہود سے متعلق چل رہا ہے۔ مگر اس آیت میں یہود و نصاریٰ، مسلمانوں اور سب بنی نوع انسان سے خطاب کیا گیا ہے۔ ’’ البر‘‘ سے مراد عمل صالح یا جنت ہے۔ اور جنت کو حاصل کرنے کے لیے کوشش کرنی پڑتی ہے۔ تم ہرگز نیکی کو نہیں پہنچ سکتے اس کے لیے بڑی کوشش کرنی پڑے گی چنانچہ اچھی چیز صدقہ کی جائے، یہ اکمل اور افضل درجہ حاصل کرنے کا طریقہ ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ کمتر چیز یا ضرورت سے زائد چیز یا استعمال شدہ پرانی چیز کو صدقہ نہیں کیا جاسکتا، یا صدقہ کرنے پر اسکا اجر نہیں ملے گا۔ اس قسم کی چیزوں کا صدقہ کرنا بھی یقینا جائز اور باعث اجر ہے۔ لیکن کمال و افضلیت محبوب چیز کو خرچ کرنے میں ہے اور جو کچھ تم خرچ کرو گے اللہ اُسے جانتا ہے۔ رب کی وسعت دیکھئے کہ وہ ہر ایک کو جنت کی طرف لے جانا چاہتا ہے اس لیے وہ کہتا ہے کہ جتنا ہے اس میں سے پسندیدہ چیز اللہ کی راہ میں دے دو۔ ایک روایت میں ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ جو مدینہ میں اصحاب حیثیت میں سے تھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا ’’یارسول اللہ! بیرحاء باغ مجھے سب سے زیادہ محبوب ہے میں اسے اللہ کی رضا کے لیے صدقہ کرتا ہوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ تو بہت نفع بخش مال ہے میری رائے یہ ہے کہ تم اسے اپنے رشتہ داروں میں تقسیم کردو۔ چنانچہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مشورہ سے اُسے اپنے اقارب اور چچا زادوں میں تقسیم کردیا۔ (بخاری: ۱۴۶۱، مسلم: ۹۹۸) جو دل کی تنگی سے بچا لیے گئے وہی فلاح پانے والے ہیں، دعائیں کریں۔ دوسروں کو اپنے اوپر ترجیح دیں۔ رسول اللہ نے فرمایا: جس کو اس کا عمل پیچھے کردے اس کو اس کا نسب آگے نہیں کرسکتا۔ (ابو داؤد: ۳۶۴۵)