إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا وَمَاتُوا وَهُمْ كُفَّارٌ فَلَن يُقْبَلَ مِنْ أَحَدِهِم مِّلْءُ الْأَرْضِ ذَهَبًا وَلَوِ افْتَدَىٰ بِهِ ۗ أُولَٰئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ وَمَا لَهُم مِّن نَّاصِرِينَ
بے شک وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا اور اس حال میں مر گئے کہ وہ کافر تھے، سو ان کے کسی ایک سے زمین بھرنے کے برابر سونا ہرگز قبول نہ کیا جائے گا، خواہ وہ اسے فدیے میں دے۔ یہ لوگ ہیں جن کے لیے درد ناک عذاب ہے اور ان کے لیے کوئی مدد کرنے والے نہیں۔
آخرت میں تو صرف وہ اعمال کام آئیں گے جو کسی نے اپنے لیے آگے بھیجے ہوں گے۔ ایک حدیث میں آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ قیامت والے دن ایک جہنمی سے کہے گا کہ تیرے پاس دنیا بھر کا سامان ہو تو کیا تو اسے عذاب نار کے بدلے دینا پسند کرے گا وہ کہے گا ’’ہاں‘‘ اللہ تعالیٰ فرمائے گا میں نے دنیامیں تجھ سے اس سے کہیں زیادہ آسان بات کا مطالبہ کیا تھا کہ میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا ’’مگر تو شرک سے باز نہ آیا‘‘۔ (مسند: ۱۲۷/۳، بخاری: ۳۳۳۴) اس سے معلوم ہوا کہ کافر کے لیے جہنم کا دائمی عذاب ہے اس نے اگر دنیا میں کچھ اچھے کام کیے بھی ہونگے تو بھی کفر کی وجہ سے وہ ضائع ہی ہوجائیں گے۔ ایک حدیث میں ہے کہ عبداللہ بن جدعان کے بارے میں پوچھا گیا کہ وہ مہمان نواز، غریب پرور تھا، اور غلاموں کو آزاد کرنے والا تھا، کیا یہ اعمال اُسے نفع دیں گے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ’’نہیں‘‘ کیونکہ اس نے ایک دن بھی اپنے رب سے اپنے گناہوں کی معافی نہیں مانگی (مسلم: ۲۱۴) اسی طرح اگر کوئی شخص آخرت میں زمین بھر سونا بطور فدیہ دے کر یہ چاہے گا کہ وہ عذاب جہنم سے بچ جائے تو یہ ممکن نہیں ہوگا، اول تو وہاں کسی کے پاس ہوگا ہی کیا؟ اور اگر بالغرض اس کے پاس دنیا بھر کے خزانے ہوں بھی اور انھیں دے کر عذاب جہنم سے چھوٹ جانا چاہے تو یہ بھی نہیں ہوگا، کیونکہ اس سے وہ معاوضہ یا فدیہ قبول ہی نہیں کیا جائے گا۔ (مسلم: ۳۱۲) جس طرح سورۃ بقرہ ۱۲۳ : میں فرمایا کہ اس سے کوئی معاوضہ قبول کیا جائے گا اور نہ کوئی سفارش اسے فائدہ پہنچائے گی۔ سورۃ ابراہیم ۳۱ : میں فرمایا اس دن میں کوئی خریدو فروخت نہ ہوگی نہ کوئی دوستی ہی کام آئے گی۔