وَمَا كَانَ لَنَا عَلَيْكُم مِّن سُلْطَانٍ ۖ بَلْ كُنتُمْ قَوْمًا طَاغِينَ
اور ہمارا تم پر کوئی غلبہ نہ تھا، بلکہ تم (خود) حد سے بڑھنے والے لوگ تھے۔
اعتراف گناہ: یعنی جس بات کی پہلے انھوں نے نفی کی تھی کہ ہمارا تم پر کون سا زور تھا کہ تمہیں گمراہ کرتے۔ اب اس کا یہاں اعتراف ہے کہ ہاں واقعی ہم نے تمہیں گمراہ کیا تھا۔ لیکن اس تنبیہ کے ساتھ کیا کہ ہمیں تم مورد طعن مت بناؤ، اس لیے کہ ہم خود بھی گمراہ تھے۔ ہم نے تمہیں بھی اپنے جیسا ہی بنانا چاہا، اور تم نے آسانی سے ہماری راہ اپنا لی۔ جس طرح شیطان بھی اس روز کہے گا۔ سورہ ابراہیم (۲۲) میں ارشاد ہے ’’اور جب کام کا فیصلہ کر دیا جائے گا تو شیطان کہے گا کہ اللہ نے تو تمہیں سچا وعدہ دیا تھا۔ اور میں نے جو تم سے وعدے کیے اس کے خلاف کیا، میرا تم پر کوئی دباؤ تو تھا نہیں، ہاں میں نے تمہیں پکارا اور تم نے میری بات مان لی پس تم مجھے الزام نہ لگاؤ بلکہ خود اپنے آپ کو ملامت کرو۔‘‘ مجرموں سے سلوک: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ آج کے دن سب لوگ جہنم کے عذابوں میں شریک ہیں اس لیے کہ ان کا جرم بھی مشترکہ ہے یعنی شرک، شر و فساد اور معصیت ان کا وطیرہ تھا۔ ہر قسم کے گنہگاروں کے ساتھ ہمارا یہی معاملہ ہے ہر ایک اپنے اپنے اعمال کی سزا بھگت رہا ہے۔