سورة يس - آیت 18

قَالُوا إِنَّا تَطَيَّرْنَا بِكُمْ ۖ لَئِن لَّمْ تَنتَهُوا لَنَرْجُمَنَّكُمْ وَلَيَمَسَّنَّكُم مِّنَّا عَذَابٌ أَلِيمٌ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

انھوں نے کہا بے شک ہم نے تمھیں منحوس پایا ہے، یقیناً اگر تم باز نہ آئے تو ہم ضرور ہی تمھیں سنگسار کردیں گے اور تمھیں ہماری طرف سے ضرور ہی دردناک عذاب پہنچے گا۔

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

انبیا اور رسل سے کافروں کا رویہ: ان کافروں نے ان رسولوں سے کہا کہ تمہارے آنے سے ہمیں کوئی برکت و خیریت تو ملی نہیں بلکہ اور برائی اور بدی پہنچی۔ تم ہو ہی بد شگون، تم جہاں جاؤ گے بلائیں برسیں گی۔ سنو اگر تم اپنے طریقے سے باز نہ آئے اور یہی کہتے رہے تو ہم تمہیں سنگسار کر دیں گے اور المناک سزائیں دے۔‘‘ رسولوں کا جواب: رسولوں نے جواب دیا کہ تم خود بد فطرت ہو تمہارے اعمال ہی برے ہیں۔ یہی بات فرعونیوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم کے مومنوں سے کہی تھی جب انھیں کوئی راحت ملتی ہے تو کہتے ہیں ’’ ہم تو اس کے ہی مستحق تھے اور اگر کوئی رنج پہنچتا ہے تو حضرت موسیٰ اور مومنوں کی بد شگونی پر محمول کرتے ہیں جس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے سورہ اعراف (۱۳۱) میں فرمایا: ﴿فَاِذَا جَآءَتْهُمُ الْحَسَنَةُ قَالُوْا لَنَا هٰذِهٖ وَ اِنْ تُصِبْهُمْ سَيِّئَةٌ يَّطَّيَّرُوْا بِمُوْسٰى وَ مَنْ مَّعَهٗ اَلَا اِنَّمَا طٰٓىِٕرُهُمْ عِنْدَ اللّٰهِ﴾ ’’ان کی مصیبتوں کی وجہ ان کے بد اعمال ہیں جن کا وبال ہماری جناب سے انھیں پہنچ رہا ہے۔ خود جناب محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی یہی کہا گیا تھا۔‘‘ چنانچہ سورہ النساء میں فرمایا: ﴿مَا اَصَابَكَ مِنْ حَسَنَةٍ فَمِنَ اللّٰهِ وَ مَا اَصَابَكَ مِنْ سَيِّئَةٍ فَمِنْ نَّفْسِكَ وَ اَرْسَلْنٰكَ لِلنَّاسِ رَسُوْلًا وَ كَفٰى بِاللّٰهِ شَهِيْدًا﴾ یعنی ان کافروں کو اگر کوئی نفع ہوتا ہے تو کہتے ہیں کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے۔ اور اگر کوئی نقصان ہوتا ہے تو کہتے ہیں یہ تیری طرف سے ہے تو کہہ دے کہ سب کچھ اللہ کی جانب سے ہے۔ انھیں کیا ہو گیا ہے کہ ان سے یہ بات بھی سمجھی نہیں جاتی۔ پھر فرمایا کہ صرف اس وجہ سے کہ ہم نے تمہیں نصیحت کی، تمھاری خیر خواہی کی۔ تمھاری اللہ کی توحید کی طرف راہنمائی کی اور تمہیں اخلاص و عبادت کے طریقے سکھائے تم ہمیں منحوس سمجھنے لگے اور ہمیں ڈرانے دھمکانے لگے۔ حقیقت یہ ہے کہ تم حدود الٰہی سے تجاوز کر جاتے ہو۔ اور مقابلہ پر اتر آئے ہو۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’بد شگونی ایک وہم ہے جو تمھارے دل میں گزرتا ہے یہ وہم تمھیں کسی کام سے نہ روکے۔‘‘ (مسلم: ۲۲۲)