لَقَدْ حَقَّ الْقَوْلُ عَلَىٰ أَكْثَرِهِمْ فَهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ
بے شک ان کے اکثر پر بات ثابت ہوچکی، سو وہ ایمان نہیں لائیں گے۔
قرآن کریم میں جہاں بھی لفظ ’’ حَقَّ الْقَوْلُ ‘‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے تو اس کے مخاطب عموماً وہ لوگ ہوتے ہیں جو یا تو آخرت پر ایمان ہی نہ رکھتے ہوں یا پھر وہ لوگ ہوتے ہیں جو آخرت کو مانتے تو ہیں مگر ساتھ ہی انھوں نے ایسے عقائد بھی گھڑ رکھے ہوتے ہیں جو آخرت پر ایمان لانے کے اصل مقصد کو فوت کر دیتے ہیں۔ جیسے یہود کا عقیدہ تھا کہ انھیں جہنم کی آگ نہیں چھوئے گی مگر چند دن۔ یہود و نصاریٰ کا یہ عقیدہ کہ وہ اللہ کے بیٹے اور اس کے چہیتے ہیں اللہ انھیں کیوں عذاب کرے گا؟ یا مسلمانوں کا یہ عقیدہ کہ فلاں حضرت صاحب کی بیعت کر لی جائے۔ وہ اپنے ساتھ ہی جنت میں لے جائیں گے یا یہ کہ اللہ سے سفارش کر کے انھیں بخشوا لیں گے۔ ایسے تمام تر عقائد فی الحقیقت آخرت کے عقیدہ کی نفی کر دیتے ہیں۔ یہاں یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ ایمان سے مراد ایمان بالآخرت ہے۔ ورنہ اللہ کی ہستی کو تو کفار مکہ بھی تسلیم کرتے تھے۔ البتہ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے تھے اسی وجہ سے آپ کی رسالت کا بھی انکار کر دیتے تھے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے الم السجدہ میں ارشاد فرمایا: ﴿لَاَمْلَـَٔنَّ جَهَنَّمَ مِنَ الْجِنَّةِ وَ النَّاسِ اَجْمَعِيْنَ﴾ (السجدۃ: ۱۳) ’’میں جہنم کو تجھ سے اور تیرے پیروکاروں سے بھر دوں گا‘‘ قرآن کریم میں ایک جگہ فرمایا: یعنی ان لوگوں نے شیطان کے پیچھے لگ کر اپنے آپ کو جہنم کا مستحق قرار دے لیا، حالا نکہ اللہ نے تو انھیں اختیار و حریت ارادہ سے نوازا تھا۔ لیکن انھوں نے اس کا غلط استعمال کیا اور یوں جہنم کا ایندھن بن گئے۔ یہ نہیں کہ اللہ نے انھیں جبراً ایمان سے محروم رکھا، کیونکہ جبر کی صورت میں تو وہ عذاب کے مستحق ہی قرار نہ پاتے۔