مَا كَانَ لِبَشَرٍ أَن يُؤْتِيَهُ اللَّهُ الْكِتَابَ وَالْحُكْمَ وَالنُّبُوَّةَ ثُمَّ يَقُولَ لِلنَّاسِ كُونُوا عِبَادًا لِّي مِن دُونِ اللَّهِ وَلَٰكِن كُونُوا رَبَّانِيِّينَ بِمَا كُنتُمْ تُعَلِّمُونَ الْكِتَابَ وَبِمَا كُنتُمْ تَدْرُسُونَ
کسی بشر کا کبھی حق نہیں کہ اللہ اسے کتاب اور حکم اور نبوت دے، پھر وہ لوگوں سے کہے کہ اللہ کو چھوڑ کر میرے بندے بن جاؤ اور لیکن رب والے بنو، اس لیے کہ تم کتاب سکھایا کرتے تھے اور اس لیے کہ تم پڑھا کرتے تھے۔
اس آیت میں عیسائیوں کے بارے میں کہا جارہاہے کہ انھوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو خدا بنایا ہوا تھا۔ حالانکہ وہ ایک انسان تھے جنھیں کتاب و حکمت اور نبوت سے سرفراز کیا گیا تھا۔ اور ایسا کوئی شخص یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ اللہ کو چھوڑ کر میرے پجاری اور بندے بن جا ؤ بلکہ وہ تو یہی کہے گا کہ رب والے بن جا ؤ۔ شان نزول: کے بارے میں کئی اقوال ہیں اور وہ سب درست معلوم ہوتے ہیں۔ ’’پہلا قول جب نجران کے عیسائی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بحث و مناظرہ کرنے آئے تو یہود ان کے ساتھ مل گئے اور طنز کرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہنے لگے کہ آپ چاہتے ہیں کہ ہم آپ کی پرستش کریں، تب یہ آیت نازل ہوئی۔ (تفسیر طبری: ۶/ ۵۳۹) دوسرا قول کسی صحابی نے آپ سے عرض کیا کہ جس طرح ایرانی اور رومی اپنے اپنے بادشاہوں کو سجدے کرتے ہیں کیا ہم بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کی بجائے سجدہ نہ کریں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات سے سختی سے منع کیا اور فرمایا کہ اللہ کے سوا اگر کسی کو سجدہ کرنا جائز ہوتا تو میں عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے کیونکہ شوہر کا بیوی پر بہت حق ہے۔ تب یہ آیت نازل ہوئی۔ ان آیات میں قائدہ کلیہ بیان کردیا گیا ہے کہ کوئی تعلیم جو اللہ کے سوا کسی کی بندگی سکھاتی اور بندے کو اللہ تعالیٰ کے مقام تک لے جاتی ہے وہ ہرگز کسی پیغمبر کی تعلیم نہیں ہوسکتی۔ اس آیت سے یہ بھی واضح ہو گیا کہ جب کتاب اللہ کا علم رکھنے والے کے لیے ضروری ہے کہ وہ لوگوں کو قرآن کی تعلیم دے اور یہ بھی کہ جب اللہ کے پیغمبروں کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ لوگوں کو اپنی عبادت کرنے کا حکم دیں تو کسی اورکو یہ حق کیونکر حاصل ہوسکتا ہے اور جو کتاب اسے دی جاتی ہے جسے تم پڑھتے اور پڑھاتے ہو اس کا تقاضا یہی ہے کیونکہ انبیاء کا کام کفر و شرک کو مٹانا ہے نہ کہ پھیلانا اور کسی دوسرے کو رب بنالینے سے بڑھ کر کفر و شرک کی اور کیا بات ہوسکتی ہے۔ علماء کو رب بنانے کا مطلب: واضح رہے کہ اپنے علماء اور مشائخ کی باتوں کے سامنے بلا تحقیق سر تسلیم کردینا بھی انھیں رب قراردینے کے متراد ف ہوتا ہے۔‘‘ جب یہ آیت (اِتَّخَذُوْۤا اَحْبَارَهُمْ وَ رُهْبَانَهُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ) نازل ہوئی تو سیدنا عدی بن حاتم (جو پہلے عیسائی) تھے نے رسول اللہ سے عرض کیا کہ ہم نے اپنے علماء و مشائخ کو رب تو نہیں بنا رکھا تھا، آپ نے فرمایا ’’کیا یہ بات نہ تھی کہ جس چیز کو وہ حلال کہتے تم اُسے حلال اور جسے وہ حرام کہتے تم اُسے حرام تسلیم کرتے تھے؟ عدی بن حاتم کہنے لگے ’’ہاں یہ بات تو تھی‘‘۔ آپ نے فرمایا ’’یہی رب بنانا ہوتا ہے‘‘۔ (ترمذی: ۱۰/ ۳۰۹۵)