وَأَقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمَانِهِمْ لَئِن جَاءَهُمْ نَذِيرٌ لَّيَكُونُنَّ أَهْدَىٰ مِنْ إِحْدَى الْأُمَمِ ۖ فَلَمَّا جَاءَهُمْ نَذِيرٌ مَّا زَادَهُمْ إِلَّا نُفُورًا
اور انھوں نے اپنی پختہ قسمیں کھاتے ہوئے اللہ کی قسم کھائی کہ واقعی اگر کوئی ڈرانے والا ان کے پاس آیا تو ضرور بالضرور وہ امتوں میں سے کسی بھی امت سے زیادہ ہدایت پانے والے ہوں گے، پھر جب ان کے پاس ایک ڈرانے والا آیا تو اس نے ان کو دور بھاگنے کے سوا کچھ زیادہ نہیں کیا۔
قریش اور اہل عرب نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے بڑی سخت قسمیں کھا رکھی تھیں کہ اگر اللہ کا کوئی رسول ہم میں آئے تو ہم تمام دنیا سے زیادہ اس کی تابعداری کریں گے جیسے سورہ انعام میں ارشاد ہے ﴿اَنْ تَقُوْلُوْا اِنَّمَا اُنْزِلَ الْكِتٰبُ عَلٰى طَآىِٕفَتَيْنِ مِنْ قَبْلِنَا وَ اِنْ كُنَّا عَنْ دِرَاسَتِهِمْ لَغٰفِلِيْنَ﴾ یعنی اس لیے کہ تم یہ نہ کہہ سکو کہ ہم سے پہلے کی جماعتوں پر تو البتہ کتابیں اتریں۔ لیکن ہم تو ان سے بے خبر رہے۔ اگر ہم پر کتاب اترتی تو ہم ان سے بہت زیادہ راہ یافتہ ہو جاتے۔ لو اب تو خود تمہارے پاس تمہارے رب کی بھیجی ہوئی دلیل (قرآن) آ پہنچی۔ ہدایت و رحمت تمہارے ہاتھوں میں دی جا چکی ہے۔ اب بتاؤ کہ رب کی آیتوں کی تکذیب کرنے والوں اور ان سے منہ موڑنے والوں سے زیادہ ظالم کون ہے؟ ان کے پاس اللہ کے آخری پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم اور رب کی آخری افضل ترین کتاب آ چکی۔ لیکن یہ کفر میں اور بڑھ گئے۔