وَهُمْ يَصْطَرِخُونَ فِيهَا رَبَّنَا أَخْرِجْنَا نَعْمَلْ صَالِحًا غَيْرَ الَّذِي كُنَّا نَعْمَلُ ۚ أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُم مَّا يَتَذَكَّرُ فِيهِ مَن تَذَكَّرَ وَجَاءَكُمُ النَّذِيرُ ۖ فَذُوقُوا فَمَا لِلظَّالِمِينَ مِن نَّصِيرٍ
اور وہ اس میں چلائیں گے، اے ہمارے رب! ہمیں نکال لے، ہم نیک عمل کریں گے، اس کے خلاف جو ہم کیا کرتے تھے۔ اور کیا ہم نے تمھیں اتنی عمر نہیں دی کہ اس میں جو نصیحت حاصل کرنا چاہتا حاصل کرلیتا اور تمھارے پاس خاص ڈرانے والا بھی آیا۔ پس چکھو کہ ظالموں کا کوئی مددگار نہیں۔
جہنمیوں کی فریاد کے مختلف جوابات: اہل دوزخ کی اس فریاد کا ذکر بھی قرآن کریم میں متعدد مقامات پر مذکور ہے اور اس کے مختلف جوابات بھی۔ مثلاً ایک مقام پر یہ جواب دیا گیا ہے کہ اگر ہم انھیں دوبارہ دنیا میں بھیج بھی دیں تو وہ پھر دنیا کی دلفریبیوں پر مفتون ہو جائیں گے اور پھر ویسے ہی کام کریں گے جیسے پہلے کر کے آئے ہیں دوسرے مقام پر یہ جواب دیا گیا کہ ان کی یہ آرزو بالکل لغو ہو گی کیونکہ ایمان لانے سے مراد غیب پر ایمان لانا ہے۔ اور اعمال صالحہ کا نمبر اس کے بعد آتا ہے اور یہاں روز آخرت میں جب سب کچھ انھوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا تو پھر یہ تو ایمان بالشہادت ہو گیا اور شہادت یا دیکھی ہوئی چیز پر تو ہر کوئی یقین کرلیتا ہے۔ پھر ان کی آزمائش کیا رہی۔ جب کہ ہر انسان کو قوتِ ارادہ و اختیار اور عقل و فہم اس لیے دیا گیا تھا کہ اس کی آزمائش ہو گی تیسرا جواب یہاں دیا گیا ہے کہ کیا تمہیں اتنی عمر دنیا میں نہیں دی گئی تھی کہ اگر غور و فکر کرکے تم ایمان لانا چاہتے تو اس میں کوئی بات مانع نہ تھی۔ اس کے علاوہ تمھارے پاس نبی بھی آئے تھے۔ جنھوں نے تمہیں تمہارے اس برے انجام سے پوری طرح آگاہ کر دیا تھا اس بات کا ان مجرموں کے پاس کوئی جواب نہ ہو گا۔ اتنی عمر سے مراد سن شعور ہے، بلوغت کے بعد انسان میں عقل و شعور آ جاتا ہے وہ اپنا نفع و نقصان سوچنے کے قابل ہو جاتا ہے۔ اسی لیے اس عمر میں وہ مکلف سمجھا جاتا ہے۔ اس عمر سے پہلے اگر کوئی شخص مر جائے تو اس کا عذر قابل قبول ہو سکتا ہے اور جس شخص کو چالیس یا پچاس یا ساٹھ سال عمر مل جائے تو اس پر تو مکمل طور پر حجت تمام ہو جاتی ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ: ’’جسے اللہ تعالیٰ نے ساٹھ ستر سال کی عمر کو پہنچا دیا اس کا کوئی عذر پھر اللہ کے ہاں نہیں چلے گا۔‘‘(بخاری۶۴۱۹، مسند احمد: ۲/ ۲۷۵)