جَنَّاتُ عَدْنٍ يَدْخُلُونَهَا يُحَلَّوْنَ فِيهَا مِنْ أَسَاوِرَ مِن ذَهَبٍ وَلُؤْلُؤًا ۖ وَلِبَاسُهُمْ فِيهَا حَرِيرٌ
ہمیشگی کے باغات، جن میں وہ داخل ہوں گے، ان میں انھیں سونے کے کنگن اور موتی پہنائے جائیں گے اور ان کا لباس ان میں ریشم ہوگا۔
عیش و عشرت کی وہ انتہا جو اس دنیا میں سمجھی جاتی تھی۔ وہ سونے کے کنگن اور ریشم کا نرم و نازک لباس ہے جو راجے مہاراجے پہنتے تھے۔ اس لیے ان چیزوں کا نام لیا گیا ہے۔ مقصد یہ ہے کہ جنت والوں کا لباس اور عیش و عشرت اس دنیا کے بادشا ہوں، اور راجوں مہاراجوں سے بے انتہاء زیادہ ہو گا۔ سونا اور ریشم اس دنیا میں امت مسلمہ کے مردوں پر حرام کیا گیا ہے۔ جس میں بے شمار حکمتیں پوشیدہ ہیں۔ سب سے بڑی اور عام فہم بات ہے کہ لوگ ایسی عیاشیوں میں پڑ کر اپنی ذات پر ہی اس طرح خرچ کرنا شروع نہ کر دیں کہ غریبوں کا خیال نہ رکھ سکیں گے یہی باتیں طبقاتی تقسیم اور اس سے آگے بہت بڑے فتنہ و فساد کا پیش خیمہ بنتی ہیں مگر جنت میں چونکہ ایسی خرابیوں کا احتمال ہی نہ ہو گا لہٰذا وہاں یہ چیزیں جائز ہوں گی۔