سورة آل عمران - آیت 77

إِنَّ الَّذِينَ يَشْتَرُونَ بِعَهْدِ اللَّهِ وَأَيْمَانِهِمْ ثَمَنًا قَلِيلًا أُولَٰئِكَ لَا خَلَاقَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ وَلَا يُكَلِّمُهُمُ اللَّهُ وَلَا يَنظُرُ إِلَيْهِمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلَا يُزَكِّيهِمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

بے شک جو لوگ اللہ کے عہد اور اپنی قسموں کے عوض تھوڑی قیمت لیتے ہیں، وہ لوگ ہیں کہ ان کے لیے آخرت میں کوئی حصہ نہیں اور اللہ قیامت کے دن نہ ان سے بات کرے گا اور نہ ان کی طرف دیکھے گا اور نہ انھیں پاک کرے گا اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

اللہ کے عہد اور جھوٹی قسموں کے بدلے تھوڑا سا فائدہ اٹھا لینے کی بہت سی صورتیں ہیں۔ جیسے جھوٹی قسمیں کھا کر اپنا سودا بیچنا یا کسی کا مال ہڑپ کر جانا اس حكم میں یہ دونوں قسم كے لوگ شامل ہیں۔ جھوٹی قسم سے مال بٹورنا: اشعث بن قیس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ یہ آیت میرے حق میں اتری، میرے چچا زاد بھائی کی زمین میں میرا کنوا ں تھا۔ آپ نے مجھ سے فرمایا کہ ’’گواہ لا ؤ‘‘ ورنہ اس سے قسم لے لو۔ میں نے عرض کیا ’’یارسول اللہ وہ تو قسم کھا جائے گا‘‘ آپ نے فرمایا جو شخص کسی مسلمان کا مال مار لینے کی نیت سے خواہ مخواہ جھوٹی قسم کھائے تو جب وہ اللہ سے ملے گا، تو اس وقت اللہ اس پر غضب ناک ہوگا۔ (بخاری: ۵۰۔ ۴۵۴۹) عبداللہ بن اوبی اوفیٰ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے بازار میں اپنا مال رکھا، اور ایک مسلمان کو پھانسنے کے لیے جھوٹی قسم کھا کر کہنے لگا کہ مجھے اس مال کی اتنی قیمت ملتی ہے حالانکہ یہ غلط تھی تب اللہ نے یہ آیت اتاری۔ (بخاری: ۴۵۵۱) یہود کی حرام خوری کی صورتیں: فقہی موشگافیاں، کتاب اللہ میں تحریف یا غلط تاویل، غلط فتوے دینا، کسی سے کوئی چیز لینا اور پھر مکر جانا، جھوٹی قسم اُٹھا لینا، عاریتاً لینا غرض بد دیانتی کی جتنی بھی اقسام ہوسکتی ہیں ان سب پر اس آیت کا اطلاق ہوتا ہے۔ معاہدہ کیا ہے: ایک ایمان والے شخص کا نماز پڑھنا، زکوٰۃ دینا، اللہ کی فرمانبرداری كرنا، حلال رزق حاصل کرنا، حرام سے بچنا،كہ یہ سب رب سے كیے عہد میں داخل ہے۔شیطان انسان کو اُکساتا ہے۔ ایک دفعہ غلطی کرلی تو پھر اگلے کام خود بخود ہوجاتے ہیں۔ اس لیے آزمائشوں اور تکلیفوں میں بھی اللہ کی طرف جھکنا ہے۔ اللہ اپنے حصار میں لے لے گا۔ قیامت کے دن اللہ کلام نہیں کرے گا: یا دیکھے گا بھی نہیں، یا اس پر اللہ کا غضب ہوگا، یا انھیں پاک نہیں کرے گا، جب قرآن کریم یا احادیث میں کسی جرم کے متعلق ایسے الفاظ استعمال ہوں تو ایسے گناہ کبیرہ گناہ ہوا کرتے ہیں۔ مگر ایسے جرائم کے باوجود یہ لوگ سمجھ رہے ہیں کہ قیامت کے دن یہی اللہ کے مقرب بندے ہونگے، انہی کی طرف نظر عنایت ہوگی، اور جو تھوڑا بہت میل ان کو لگ گیا ہے وہ بھی ان کے بزرگوں کے صدقے ان سے دھو دیا جائے گا، حالانکہ ان کے ساتھ معاملہ بالکل اس کے برعکس ہوگا۔