يُولِجُ اللَّيْلَ فِي النَّهَارِ وَيُولِجُ النَّهَارَ فِي اللَّيْلِ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ كُلٌّ يَجْرِي لِأَجَلٍ مُّسَمًّى ۚ ذَٰلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمْ لَهُ الْمُلْكُ ۚ وَالَّذِينَ تَدْعُونَ مِن دُونِهِ مَا يَمْلِكُونَ مِن قِطْمِيرٍ
وہ رات کو دن میں داخل کرتا ہے اور دن کو رات میں داخل کرتا ہے اور اس نے سورج اور چاند کو مسخر کردیا، ہر ایک ایک مقرر وقت تک چل رہا ہے۔ یہی اللہ تمھارا پروردگار ہے، اسی کی بادشاہی ہے اور جن کو تم اس کے سوا پکارتے ہو وہ کھجور کی گٹھلی کے ایک چھلکے کے مالک نہیں۔
اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ کا بیان ہو رہا ہے کہ اس نے رات کو اندھیرے والی اور دن کو روشنی والا بنایا ہے۔ کبھی کی راتیں بڑی، کبھی کے دن بڑے، کبھی دونوں یکساں کبھی جاڑے ہیں کبھی گرمیاں ہیں۔ اسی نے سورج اور چاند کو تھمے ہوئے اور چلتے پھرتے ستاروں کو مطیع کر رکھا ہے۔ مقدار معین پر اللہ کی طرف سے مقرر شدہ چال پر چلتے رہتے ہیں۔ پوری قدرتوں والے اور کامل علم والے اللہ نے یہ نظام قائم کر رکھا ہے جو برابر چل رہا ہے اور وقت مقررہ یعنی قیامت تک یونہی جاری رہے گا۔ جس اللہ نے یہ سب کچھ کیا ہے وہی دراصل لائق عبادت ہے اور وہی سب کا پالنے والا ہے۔ اس کے سوا کوئی بھی لائق عبادت نہیں۔ جن بتوں کو اور اللہ کے سوا جن جن کو لوگ پکارتے ہیں خواہ وہ فرشتے ہی کیوں نہ ہوں۔ اور اللہ کے پاس بڑے درجے رکھنے والے ہی کیوں نہ ہوں۔ وہ سب کے سب اس کے سامنے محض مجبور اور بالکل بے بس ہیں۔ قطمیر اس جھلی کو کہتے ہیں جو کھجور اور گٹھلی کے درمیان ہوتی ہے۔ کھجور کی گٹھلی کے اوپر کے باریک چھلکے جیسی چیز کا بھی انھیں اختیار نہیں۔ آسمان و زمین کی حقیر سے حقیر چیز کے بھی وہ مالک نہیں جن کو تم اللہ کے سوا پکارتے ہو۔ (ابن کثیر)