مَن كَانَ يُرِيدُ الْعِزَّةَ فَلِلَّهِ الْعِزَّةُ جَمِيعًا ۚ إِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ يَرْفَعُهُ ۚ وَالَّذِينَ يَمْكُرُونَ السَّيِّئَاتِ لَهُمْ عَذَابٌ شَدِيدٌ ۖ وَمَكْرُ أُولَٰئِكَ هُوَ يَبُورُ
جو شخص عزت چاہتا ہو سو عزت سب اللہ ہی کے لیے ہے۔ اسی کی طرف ہر پا کیزہ بات چڑھتی ہے اور نیک عمل اسے بلند کرتا ہے اور جو لوگ برائیوں کی خفیہ تدبیر کرتے ہیں ان کے لیے بہت سخت عذاب ہے اور ان لوگوں کی خفیہ تدبیر ہی برباد ہوگی۔
عزت اللہ کے پاس ہے: جو شخص دنیا و آخرت میں با عزت رہنا چاہتا ہے اسے اللہ تعالیٰ کی اطاعت گزاری کرنی چاہیے۔ وہی اس مقصد کو پورا کرنے والا ہے۔ دنیا اور آخرت کا مالک وہی ہے ساری عزتیں اسی کی ملکیت ہیں۔ سورہ منافقوں میں فرمایا: ﴿وَ لِلّٰهِ الْعِزَّةُ وَ لِرَسُوْلِهٖ وَ لِلْمُؤْمِنِيْنَ وَ لٰكِنَّ الْمُنٰفِقِيْنَ لَا يَعْلَمُوْنَ﴾ عزت تو صرف اللہ تعالیٰ کے لیے اور اس کے رسول کے لیے اور ایمان والوں کے لیے ہے لیکن یہ منافق مانتے نہیں۔‘‘ حضرت مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں بتوں کی پرستش میں عزت نہیں، عزت والا تو اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ (تفسیر طبری: ۲۰۔۴۴۲) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں، جو لوگ اللہ کا جلال، اس کی تسبیح، اس کی حمد، اس کی بڑائی، اس کی وحدانیت کا ذکر کرتے رہتے ہیں۔ ان کے لیے ان کے یہ کلمات عرش کے آس پاس اللہ کے سامنے ان کا ذکر کرتے رہتے ہیں۔ کیا تم نہیں چاہتے کہ کوئی نہ کوئی تمہارا ذکر تمہاے رب کے سامنے کرتا رہے۔ (مسند احمد۴۔۲۶۸۔ ابن ماجہ: ۳۰۸۹) ابن عباس رضی اللہ عنہما کا فرمان ہے کہ پاک کلموں سے مراد ذکر الٰہی ہے اور عمل صالح سے مراد فرائض کی ادائیگی ہے۔ پس جو شخص ذکر الٰہی اور ادائے فریضہ کرے، اس کا عمل اس کے ذکر کو اللہ تعالیٰ کی طرف چڑھاتا ہے اور جو ذکر کرے اور فریضہ ادا نہ کرے۔ اس کا کلام اس کے عمل پر لوٹا دیا جاتا ہے۔ (تفسیر طبری ۲۰۔۴۴۵، ابن کثیر) پاکیزہ کلمات: میں سب سے پہلا درجہ توکلمہ طیبہ کا ہے۔ جس میں شرک کا پورا رد موجود ہے اور توحید خالص کا اقرار ہے پھر اللہ کا ذکر، دعا، قرآن کی تلاوت آخرت وغیرہ سے متعلق ٹھوس حقائق پر مبنی ہیں یہ کلمات ’’اللہ‘‘ کی طرف بلند ضرور ہوتے ہیں مگر اس شرط پر کہ انھیں اعمال صالحہ یا ان اقوال پاکیزہ کے مطابق افعال کی تائید بھی حاصل ہو۔ یہی صورت اعمال صالحہ کی ہے۔ ان کی مقبولیت کی شرط یہ ہے کہ ان کی بنیاد اقوال پاکیزہ پر اٹھی ہو۔ کفار مکہ کی چال کیسے اُن پر اُلٹ پڑی: بری چالوں سے مراد کفار کی ہر وہ تدبیر ہے جس سے اسلام کی راہ روکی جا سکتی ہو۔ خفیہ طریقے سے کسی کو نقصان پہنچانے کی تدبیر کو مکر کہتے ہیں۔ کفر و شرک کا ارتکاب بھی مکر ہے کہ اس طرح اللہ کے راستہ کو نقصان پہنچایا جاتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف قتل وغیرہ کی جو سازشیں کفار مکہ کرتے رہے وہ بھی مکر ہے ریاکاری بھی مکر ہے۔ یہاں یہ لفظ عام اور مکر کی تمام صورتوں کو شامل ہے۔ یعنی ان کا مکر برباد بھی ہو گا اور اس کا وبال بھی انہی پر پڑے گا جو اس کا ارتکاب کرتے ہیں۔ ارشاد ہے: ﴿وَ لَا يَحِيْقُ الْمَكْرُ السَّيِّئُ اِلَّا بِاَهْلِهٖ﴾ (فاطر: ۴۳) ’’اور بری تدبیروں کا وبال ان تدبیر والون پر ہی پڑتا ہے۔‘‘