وَقَدْ كَفَرُوا بِهِ مِن قَبْلُ ۖ وَيَقْذِفُونَ بِالْغَيْبِ مِن مَّكَانٍ بَعِيدٍ
حالانکہ بلا شبہ وہ اس سے پہلے اس سے انکار کرچکے ہیں اور وہ بہت دور جگہ سے بن دیکھے (نشانے پر) پھینکتے رہے ہیں۔
یعنی جب دنیا میں ان سے عالم آخرت کی بات کی جاتی تھی تو اس پر غور کرنے کی بجائے اسے دیوانگی پر محمول کرتے تھے۔ نہ اللہ کو مانا، نہ رسول پر ایمان لائے نہ قیامت کے قائل ہوئے ایسے جیسے کوئی بن دیکھے اندازے سے ہی نشانے پر تیر بازی کر رہا ہو اسی طرح اللہ کی باتوں کو اپنے گمان سے ہی رد کرتے رہے۔ نبی کو کبھی کاہن کہہ دیا، کبھی شاعر بتا دیا، کبھی جادو گر کہا اور کبھی مجنون صرف اٹکل پچو کے ساتھ قیامت کو جھٹلاتے رہے اور بے دلیل اوروں کی عبادت کرتے رہے۔ جنت دوزخ کا مذاق اڑاتے رہے۔ اب ایمان اور توبہ میں حجاب آ گیا دنیا ان سے چھوٹ گئی۔ یہ دنیا سے الگ ہو گئے۔ ان دل کے اندھوں کو جہالت کے اندھیروں میں بہت دور کی سوجھتی تھی۔ نیک نیتی سے غور و فکر کرنے کا نام تک نہ لیتے تھے۔ (تیسیر القرآن)