قُلْ إِنَّمَا أَعِظُكُم بِوَاحِدَةٍ ۖ أَن تَقُومُوا لِلَّهِ مَثْنَىٰ وَفُرَادَىٰ ثُمَّ تَتَفَكَّرُوا ۚ مَا بِصَاحِبِكُم مِّن جِنَّةٍ ۚ إِنْ هُوَ إِلَّا نَذِيرٌ لَّكُم بَيْنَ يَدَيْ عَذَابٍ شَدِيدٍ
کہہ دے میں تو تمھیں ایک ہی بات کی نصیحت کرتا ہوں کہ اللہ کے لیے دو دو اور ایک ایک کر کے کھڑے ہوجاؤ، پھر خوب غور کرو کہ تمھارے ساتھی میں جنون کی کون سی چیز ہے۔ وہ تو ایک شدید عذاب سے پہلے محض تمھیں ڈرانے والا ہی ہے۔
یعنی میں تمہیں تمہارے موجودہ طرز عمل سے ڈراتا اور ایک بات کی نصیحت کرتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ تم ضد اور انانیت چھوڑ کر صرف اللہ کے لیے ایک ایک دو دو ہو کر میری بابت سوچو کہ میری زندگی تمہارے اندر گزری ہے۔ اور اب بھی جو دعوت میں تمہیں دے رہا ہوں کیا اس میں کوئی ایسی بات ہے کہ جس سے اس بات کی نشاندہی ہو کہ میرے اندر دیوانگی ہے؟ تم اگر عصبیت اور خواہش نفس سے بالا ہو کر سوچو گے تو یقیناً تم سمجھ جاؤ گے کہ تمہارے رفیق کے اندر کوئی دیوانگی نہیں ہے۔ بلکہ وہ تو تم سب کے خیر خواہ اور درد مند ہیں۔ ایک آنے والے خطرے سے جس سے تم بے خبر ہو، وہ تمہیں آگاہ کر رہے ہیں۔ حدیث میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن صفا پہاڑی پر چڑھ گئے اور عرب کے دستور کے مطابق یا صباحاہ کہہ کر بلند آواز کی جو علامت تھی کہ کوئی شخص کسی اہم بات کے لیے بلا رہا ہے۔ عادت کے مطابق اسے سنتے ہی سب لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد جمع ہو گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر میں تمہیں خبر دوں کہ دشمن تمہاری طرف چڑھائی کر کے چلا آ رہا ہے اور عجب نہیں کہ صبح شام ہی تم پر حملہ کر دے۔ تو کیا تم مجھے سچا کہو گے؟ سب نے بہ یک زبان جواب دیا کہ بیشک ہم آپ کو سچا مانیں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، سنو میں تمہیں اس عذاب سے ڈرا رہا ہوں جو تمہارے آگے ہے یہ سن کر ابو لہب ملعون نے کہا، تیرے ہاتھ ٹوٹیں، کیا اسی لیے تو نے ہم سب کو جمع کیا تھا۔ اس پر سورہ تبت یدا اتری ۔ (بخاری: ۴۸۰۱، مسلم: ۲۰۸)