وَمَا أَرْسَلْنَا فِي قَرْيَةٍ مِّن نَّذِيرٍ إِلَّا قَالَ مُتْرَفُوهَا إِنَّا بِمَا أُرْسِلْتُم بِهِ كَافِرُونَ
اور ہم نے کسی بستی میں کوئی ڈرانے والا نہیں بھیجا مگر اس کے خوشحال لوگوں نے کہا بے شک ہم اس چیز کے جو دے کر تم بھیجے گئے ہو، منکر ہیں۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دی جا رہی ہے کہ مکے کے رؤوسا اور چودھری آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان نہیں لا رہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایذائیں پہنچا رہے ہیں تو یہ کوئی نئی بات نہیں۔ ہر دور کے اکثر خوشحال لوگوں نے پیغمبروں کی تکذیب ہی کی ہے۔ اور ہر پیغمبر پر ایمان لانے والے پہلے پہل معاشرے کے غریب اور نادار قسم کے لوگ ہی ہوتے ہیں جیسے حضرت نوح علیہ السلام کی قوم نے اپنے پیغمبر سے کہا: ﴿اَنُؤْمِنُ لَكَ وَ اتَّبَعَكَ الْاَرْذَلُوْنَ﴾ (الشعراء: ۱۱۱) ’’کیا ہم تجھ پر ایمان لائیں جب کہ تیرے پیروکار رذیل لوگ ہیں۔‘‘ دوسرے پیغمبروں کو بھی ان کی قوموں نے یہی کہا۔ ملاحظہ ہو سورہ اعراف(۷۵) سورہ انعام ۵۳،۱۳۳۔ سورہ بنی اسرائیل (۱۶) سورہ ھود (۲۷)۔ (ابن کثیر)