سورة سبأ - آیت 23

وَلَا تَنفَعُ الشَّفَاعَةُ عِندَهُ إِلَّا لِمَنْ أَذِنَ لَهُ ۚ حَتَّىٰ إِذَا فُزِّعَ عَن قُلُوبِهِمْ قَالُوا مَاذَا قَالَ رَبُّكُمْ ۖ قَالُوا الْحَقَّ ۖ وَهُوَ الْعَلِيُّ الْكَبِيرُ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اور نہ سفارش اس کے ہاں نفع دیتی ہے مگر جس کے لیے وہ اجازت دے، یہاں تک کہ جب ان کے دلوں سے گھبراہٹ دور کی جاتی ہے تو وہ کہتے ہیں تمھارے رب نے کیا فرمایا ؟ وہ کہتے ہیں حق (فرمایا) اور وہی سب سے بلند، بہت بڑا ہے۔

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

اللہ تعالیٰ کی عظمت، کبریائی اور عزت و بڑائی ایسی ہے کہ بغیر اس کی اجازت کے کسی کی جرأت نہیں کہ اس کے سامنے کسی کی سفارش کے لیے لب ہلا سکے۔ ارشاد ہے: ﴿مَنْ ذَا الَّذِيْ يَشْفَعُ عِنْدَهٗ اِلَّا بِاِذْنِهٖ﴾ (البقرۃ: ۲۵۵) کون ہے؟ جو اس کے سامنے کسی کی شفاعت بغیر اس کی رضا مندی کے کر سکے۔ اور فرمایا: ﴿وَ كَمْ مِّنْ مَّلَكٍ فِي السَّمٰوٰتِ لَا تُغْنِيْ شَفَاعَتُهُمْ شَيْـًٔا اِلَّا مِنۢ بَعْدِ اَنْ يَّاْذَنَ اللّٰهُ لِمَنْ يَّشَآءُ وَ يَرْضٰى ﴾ (النجم: ۲۶) یعنی آسمانوں کے کل فرشتے بھی اس کے سامنے کسی کی سفارش کے لیے لب نہیں ہلا سکتے۔ مگر جس کے لیے اللہ اپنی رضا مندی سے اجازت دے دے، اور فرمایا: ﴿وَ لَا يَشْفَعُوْنَ اِلَّا لِمَنِ ارْتَضٰى﴾ (الانبیاء: ۲۸) وہ لوگ صرف ان کی شفاعت کر سکتے ہیں جن کے لیے اللہ کی رضا مندی ہو۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں، ’’میں اللہ کے سامنے سجدے میں گر پڑوں گا۔ اللہ ہی جانتا ہے کہ کب تک سجدے میں پڑا رہوں گا اس سجدے میں اس قدر اپنے رب کی تعریفیں بیان کروں گا کہ اس وقت تو وہ الفاظ بھی مجھے معلوم نہیں، پھر مجھ سے کہا جائے گا اے محمد! اپنا سر اٹھائیے آپ( صلی اللہ علیہ وسلم ) بات کیجیے، آپ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی بات سنی جائے گی آپ مانگئے۔ آپ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کو دیا جائے گا آپشفاعت کیجیے قبول کی جائے گی۔ (بخاری: ۷۴۱۰، مسلم: ۱۹۴، ابن کثیر) اللہ تعالیٰ کا جلال اور دہشت: تم اللہ کے ہاں سفارش کی بات کرتے ہو جس کی جلالت و عظمت شان کا یہ حال ہے کہ جب اس طرف سے کوئی حکم نازل ہوتا ہے۔ تو اس کے پاس رہنے والے مقرب فرشتے تھر تھر کانپنے لگتے ہیں اور گھبرا جاتے ہیں۔ درج ذیل حدیث سے یہ امر واضح ہے ’’سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ جب اللہ تعالیٰ کسی کام کا فیصلہ کرتا ہے۔ تو فرشتے اللہ تعالیٰ کے اس قول کے لیے از راہ عاجزی اپنے پر مارتے ہیں اور ایسی آواز آتی ہے جیسے کسی زنجیر کو صاف پتھر پر کھینچنے سے آتی ہے، پھر جب انہیں ہوش آتا ہے۔ تو ایک دوسرے سے یہ پوچھتا ہے۔ تمہارے پروردگار نے کیا کہا، دوسرا کہتا ہے جو کہا درست کہا۔ اور وہ بزرگ و برتر ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اور شیطان زمین و آسمان کے درمیان ایک دوسرے کے اوپر جمع ہو جاتے ہیں (تاکہ آسمانی خبریں چرا سکیں) (بخاری: ۷۴۱۰) ایسے جاہ و جلال والے اللہ تعالیٰ کے ہاں کسی کو یہ جرأت کیسے ہو سکتی ہے کہ اس کی اجازت کے بغیر کسی کی سفارش کر سکے۔ اور تم لوگ کس قسم کی خوش فہمیوں میں مبتلا ہو؟ (تیسیر القرآن)