لَقَدْ كَانَ لِسَبَإٍ فِي مَسْكَنِهِمْ آيَةٌ ۖ جَنَّتَانِ عَن يَمِينٍ وَشِمَالٍ ۖ كُلُوا مِن رِّزْقِ رَبِّكُمْ وَاشْكُرُوا لَهُ ۚ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ
بلاشبہ یقیناً سبا کے لیے ان کے رہنے کی جگہ میں ایک نشانی تھی۔ دو باغ دائیں اور بائیں ( جانب) سے۔ اپنے رب کے دیے سے کھاؤ اور اس کا شکر کرو، پاکیزہ شہر ہے اور بے حد بخشنے والا رب ہے۔
نشانی سے مراد: یہاں نشانی سے مراد تاریخی شہادت ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ جب کوئی قوم اللہ کی فرمانبردار اور شکر گزار بن کر رہتی ہے۔ وہ پھلی پھولتی اور ترقی کی منازل طے کرتی جاتی ہے۔ اور جب وہ اللہ کی نافرمانی اور ناشکری کرنے لگے تو اسے بتدریج زوال آنا شروع ہو جاتا ہے۔ اور اگر وہ اپنا رویہ نہ بدلے تو اسے صفحہ ہستی سے مٹا دیا جاتا ہے۔ یہی حال قوم سبا کا ہوا تھا۔ (تیسیر القرآن) قوم سبا کے حالات: قوم سبا یمن میں رہتی تھی۔ تبع بھی ان میں سے تھے۔ بلقیس بھی انہی میں سے تھیں یہ بڑی نعمتوں اور راحتوں میں تھے۔ چین کی زندگی گزار رہے تھے سبا دراصل ایک شخص کا نام تھا۔ جس کے دس بیٹے تھے۔ بعد میں یہی دس قبیلے بن گئے انہی میں سے چار بیٹے اپنے خاندان سمیت شام کی طرف منتقل ہو گئے تھے۔ اس قوم کے عروج و زوال کا زمانہ تیرہ صدیوں پر محیط ہے۔ ایک زمانہ تھا جب تہذیب و تمدن کے لحاظ سے اس قوم کا طوطی بولتا تھا۔ اور روم اور یونان کی تہذیبیں ان کے سامنے ہیچ تھیں۔ زراعت اور تجارت کے میدان میں ان لوگوں نے خوب ترقی کی۔ ان لوگوں کا آب پاشی کا نظام نہایت عمدہ تھا۔ اس علاقہ کے دو طرف پہاڑی سلسلے تھے۔ جگہ جگہ ان لوگوں نے بارش کا پانی روکنے اور ذخیرہ رکھنے کے لیے بند بنا رکھے تھے۔ ان کا دارالحکومت مآرب تھا اور سب سے اعلیٰ اور عظیم الشان بند بھی یہاں تعمیر کیا گیا تھا۔ جو سد مآرب کے نام سے مشہور تھا۔ ان کے علاقہ کے دونوں طرف پہاڑوں کے دامن میں باغات کا سینکڑوں میلوں میں پھیلا ہوا سلسلہ موجود تھا اور انسان کو یوں محسوس ہوتا تھا کہ جس جگہ وہ کھڑا ہے اس کے دونوں طرف باغات ہی باغات ہیں۔ سبا پر اللہ تعالیٰ کی احسانات اور زرعی نظام: بارشوں کے لحاظ سے یہ علاقہ اتنا زرخیز نہیں تھا۔ مگر ان لوگوں کے نظام آبپاشی کی عمدگی کی وجہ سے ملک کے اندر تین سو مربع میل کا علاقہ جنت نظیر بن گیا تھا جس میں انواع و اقسام کے پھلوں کے درخت بھی تھے۔ کھیتی بھی خوب پیدا ہوتی تھی۔ بخورات، دار چینی اور کھجور کے نہایت بلند و بالا درختوں کے جنگل تھے۔ جب ہوا چلتی تو ان کی میٹھی مٹھی خوشبو سے سب لوگ لطف اندوز ہوتے تھے۔ اسی علاقہ کو اللہ تعالیٰ نے ’’ بَلدَۃً طَیِّبَۃً‘‘ کے الفاظ سے تعبیر فرمایا۔ یعنی سرسبز، زرخیز، فضا کا ہر وقت خوشبو سے معمور رہنا۔ آب و ہوا میں اعتدال، رزق کی فراوانی اور سامان عیش و عشرت کی بہتات، آب و ہوا کی عمدگی کی وجہ سے یہ مکھی، مچھر اور اس قسم کے دیگر موذی جانوروں سے بھی پاک تھا۔ واللہ اعلم۔ یہ وہ نعمتیں تھیں جو اللہ تعالیٰ نے انھیں عطا کر رکھی تھیں۔ بیراج اور ڈیموں کا نظام: پھر جب یہ قوم اپنی خوشحالی میں مست ہو کر رہ گئی اور دنیا کے مال و دولت اور اس کی دلفریبیوں میں مستغرق ہو کر اپنے منعم حقیقی کو یکسر بھلا دیا تو اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف انبیا مبعوث فرمائے کہتے ہیں وقتاً فوقتاً کم و بیش تیرہ انبیا علیہم السلام ان میں مبعوث ہوئے تھے۔ لیکن ہر بد مست قوم کی طرح انھوں نے بھی یہی سمجھا کہ معاشی اور زرعی ترقی کا اصل سبب ہماری اپنی ذہانت اور محنت ہے اس میں اللہ کے انعامات کا کیا دخل؟ اللہ تعالیٰ نے انہیں سنبھلنے کا کافی موقعہ دیا۔ لیکن انہوں نےکچھ فائدہ نہ اٹھایا۔ آخر ان پر اللہ کی گرفت کا وقت آگیا۔ (تیسیر القرآن) اللہ کا شکر ادا کرو: یعنی اگر تم رب کا شکر ادا کرتے رہو گے تو وہ تمہارے گناہ بھی معاف فرما دے گا۔ اس کا مطلب یہ بھی ہوا کہ انسان توبہ کرتے رہیں۔ تو پھر گناہ ہلاکت عام اور سلب انعام کا سبب نہیں بنتے۔ بلکہ اللہ تعالیٰ عفو و درگزر سے کام لیتا ہے۔ (القرآن الحکیم)