وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَمْرًا أَن يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ ۗ وَمَن يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا مُّبِينًا
اور کبھی بھی نہ کسی مومن مرد کا حق ہے اور نہ کسی مومن عورت کا کہ جب اللہ اور اس کا رسول کسی معاملے کا فیصلہ کردیں کہ ان کے لیے ان کے معاملے میں اختیار ہو اور جو کوئی اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے سو یقیناً وہ گمراہ ہوگیا، واضح گمراہ ہونا۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغام کو رد کرنا گناہ عظیم ہے: یہ آیت حضرت زینب رضی اللہ عنہا کے نکاح کے سلسلہ میں نازل ہوئی تھی۔ حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ، جو اگرچہ اصلاً عرب تھے۔ لیکن کسی نے انھیں بچپن میں زبردستی پکڑ کر بطور غلام بیچ دیا تھا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہما کے نکاح کے بعد حضرت خدیجہ نے انھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہبہ کر دیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں آزاد کر کے اپنا بیٹا بنا لیا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کا پیغام لے کر حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا کے پاس گئے۔ انہوں نے کہا میں ان سے نکاح نہیں کروں گی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ ایسا نہ کہو اور ان سے نکاح کر لو۔ حضرت زینب رضی اللہ عنہا نے جواب دیا کہ اچھا پھر کچھ مہلت دیجیے۔ ابھی یہ باتیں ہو رہی تھیں کی وحی نازل ہوئی اور یہ آیت اُتری اسے سن کر حضرت زینب رضی اللہ عنہا نے فرمایا، یا رسول اللہ کیا آپ اس نکاح سے رضا مند ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں تو حضرت زینب رضی اللہ عنہا نے جواب دیا کہ بس پھر مجھے کوئی انکار نہیں۔ میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی نہیں کروں گی میں نے اپنا نفس ان کے نکاح میں دے دیا۔ (مسلم: ۱۴۲۸، تفسیر طبری: ۲۰/ ۲۷۱)