وَإِن كُنتُنَّ تُرِدْنَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَالدَّارَ الْآخِرَةَ فَإِنَّ اللَّهَ أَعَدَّ لِلْمُحْسِنَاتِ مِنكُنَّ أَجْرًا عَظِيمًا
اور اگر تم اللہ اور اس کے رسول اور آخری گھر کا ارادہ رکھتی ہو تو بے شک اللہ نے تم میں سے نیکی کرنے والیوں کے لیے بہت بڑا اجر تیار کر رکھا ہے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم ازواج مطہرات کے اس مطالبے پر سخت کبیدہ خاطر ہوئے اور بیویوں سے علیحدگی اختیار کر لی جو ایک مہینے تک جاری رہی بالآخر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرما دی۔ اس کے بعد سب سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو یہ آیت سنا کر انھیں اختیار دیا تاہم انھیں یہ بھی ارشاد فرمایا کہ اپنے طور پر فیصلہ کرنے کی بجائے اپنے والدین سے مشورہ کرنے کے بعد کوئی اقدام کرنا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں مشورہ کروں؟ بلکہ میں اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پسند کرتی ہوں۔ یہی بات دیگر ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن نے بھی کہی اور کسی نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ کر دنیا کے عیش و آرام کو ترجیح نہیں دی۔ (بخاری: ۴۷۸۵) اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حبالہ عقد میں ۹ بیویاں تھیں پانچ قریش میں سے تھیں۔ حضرت عائشہ، حضرت حفصہ، اُم حبیبہ، سودہ اور ام سلمی رضی اللہ عنہن ۔ اور چار ان کے علاوہ یعنی حضرت صفیہ، میمونہ، زینب اور جویریہ تھیں رضی اللہ عنہن ۔ بعض لوگ مرد کی طرف سے اختیار علیحدگی کو طلاق قرار دیتے ہیں لیکن یہ بات صحیح نہیں۔ صحیح بات یہ ہے کہ اختیار علیحدگی کے بعد اگر عورت علیحدگی کو پسند کرے تو پھر یقیناً طلاق ہو جائے گی اور یہ طلاق بھی رجعی ہو گی نہ کہ بائنہ۔ صحیح بخاری کتاب الطلاق میں ہے اگر عورت علیحدگی کو اختیار نہیں کرتی تو پھر طلاق نہیں ہو گی جیسے ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن نے علیحدگی کی بجائے حرم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں ہی رہنا پسند کیا۔ تو اس اختیار کو طلاق میں شمار نہیں کیا گیا۔ (احسن البیان)