النَّبِيُّ أَوْلَىٰ بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنفُسِهِمْ ۖ وَأَزْوَاجُهُ أُمَّهَاتُهُمْ ۗ وَأُولُو الْأَرْحَامِ بَعْضُهُمْ أَوْلَىٰ بِبَعْضٍ فِي كِتَابِ اللَّهِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُهَاجِرِينَ إِلَّا أَن تَفْعَلُوا إِلَىٰ أَوْلِيَائِكُم مَّعْرُوفًا ۚ كَانَ ذَٰلِكَ فِي الْكِتَابِ مَسْطُورًا
یہ نبی مومنوں پر ان کی جانوں سے زیادہ حق رکھنے والا ہے اور اس کی بیویاں ان کی مائیں ہیں اور رشتے دار اللہ کی کتاب میں ان کا بعض، بعض پر دوسرے ایمان والوں اور ہجرت کرنے والوں سے زیادہ حق رکھنے والا ہے مگر یہ کہ تم اپنے دوستوں سے کوئی نیکی کرو۔ یہ (حکم) کتاب میں ہمیشہ سے لکھا ہوا ہے۔
آپ مومنوں کے ان کی ذات سے بھی زیادہ خیر خواہ ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت کے لیے جتنے شفیق اور خیر خواہ تھے یہ امر محتاج وضاحت نہیں اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اسی شفقت و خیر خواہی کو دیکھتے ہوئے اس آیت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مومنوں کو اپنے نفسوں سے بھی زیادہ حق دار آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کو دیگر محبتوں سے فائق تر اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کو اپنی تمام خواہشات سے اہم تر قرار دیا ہے۔ اس لیے مومنوں کے لیے ضروری ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے جن مالوں کا مطالبہ، اللہ کے لیے کریں۔ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر اس کو نچھاور کر دیں چاہے انھیں خود کتنی ہی ضرورت ہو، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے نفسوں سے بھی زیادہ محبت کریں: جیسے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا واقعہ ہے۔ حدیث میں ہے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا، یا رسول اللہ! آپ مجھے تمام جہان سے زیادہ محبوب ہیں۔ لیکن ہاں خود میرے اپنے نفس سے نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں نہیں عمر جب تک کہ میں تجھے خود تیرے نفس سے بھی زیادہ محبوب نہ بن جاؤں۔ یہ سن کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ عرض کرنے لگے۔ قسم اللہ کی یا رسول اللہ!۔ آپ اب مجھے ہر چیز سے یہاں تک کہ مجھے میری جان سے بھی زیادہ عزیز ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اب ٹھیک ہے ۔ (بخاری: ۶۶۳۲) آپ کی بیویاں مومنوں کی مائیں: یعنی احترام و تکریم میں اور ان سے نکاح نہ کرنے میں آپ کی ازواج مائیں ہیں مومن مردوں اور مومن عورتوں کی۔ وراثت کے حق دار: یعنی اب وراثت مہاجرت، اخوت اور موالات کی وجہ سے نہیں ہو گی اب وراثت صرف قریبی رشتہ کی بنیاد پر ہی ہو گی۔ ہاں تم غیر رشتے دار کے لیے احسان اور صلہ رحمی کا معاملہ کر سکتے ہو۔ نیز ان کے لیے ایک تہائی مال میں سے وصیت بھی کر سکتے ہو۔ کتاب الٰہی میں لکھا ہوا حکم: یعنی لوح محفوظ میں اصل حکم یہی ہے گوعارضی طور پر مصلحتاً دوسروں کو بھی وارث قرار دے دیا گیا تھا۔ لیکن اللہ تعالیٰ کے علم میں تھا کہ یہ منسوخ کر دیا جائے گا چنانچہ اسے منسوخ کر کے پہلا حکم بحال کر دیا ہے۔ (احسن البیان)