مَّا جَعَلَ اللَّهُ لِرَجُلٍ مِّن قَلْبَيْنِ فِي جَوْفِهِ ۚ وَمَا جَعَلَ أَزْوَاجَكُمُ اللَّائِي تُظَاهِرُونَ مِنْهُنَّ أُمَّهَاتِكُمْ ۚ وَمَا جَعَلَ أَدْعِيَاءَكُمْ أَبْنَاءَكُمْ ۚ ذَٰلِكُمْ قَوْلُكُم بِأَفْوَاهِكُمْ ۖ وَاللَّهُ يَقُولُ الْحَقَّ وَهُوَ يَهْدِي السَّبِيلَ
اللہ نے کسی آدمی کے لیے اس کے سینے میں دو دل نہیں بنائے اور نہ اس نے تمھاری ان بیویوں کو جن سے تم ظہار کرتے ہو، تمھاری مائیں بنایا ہے اور نہ تمھارے منہ بولے بیٹوں کو تمھارے بیٹے بنایا ہے، یہ تمھارا اپنے مونہوں سے کہنا ہے اور اللہ سچ کہتا ہے اور وہی (سیدھا) راستہ دکھاتا ہے۔
اللہ کا دو دل نہ بنانے کا مفہوم: اس آیت میں اصلاحی اقدام کی چند جزئیات بیان فرمائی جا رہی ہیں پہلی بات یہ کہ ہر شخص کو اس کے حقیقی باپ کی نسبت سے پکارا جائے۔ دوسری بات کسی کو ماں کہہ دینے سے وہ ماں نہیں بن جائے گی نہ بیٹا کہنے سے وہ بیٹا بن جائے گا۔ اس لیے اس کی اتباع کرو اور ظہار والی عورت کو ماں اور لے پالک کو بیٹا مت کہو۔ یعنی جس طرح ایک شخص کے دو دل نہیں ہو سکتے، اسی طرح اگر کوئی شخص اپنی بیوی سے ظہار کر لے۔ یعنی یہ کہہ دے کہ تیری پشت میرے لیے ایسے ہی ہے جیسے میری ماں کی پشت۔ تو اس طرح کہنے سے اس کی بیوی، اس کی ماں نہیں بن جائے گی۔ یوں اس کی دو مائیں نہیں ہو سکتیں۔ یہ مسئلہ ظہار کہلاتا ہے اس کی تفصیل سورہ مجادلۃ میں آئے گی۔ اس طرح کوئی شخص کسی کو اپنا بیٹا (لے پالک) بنا لے تو وہ اس کا حقیقی بیٹا نہیں بن جائے گا بلکہ وہ بیٹا تو اپنے باپ کا ہی رہے گا۔ اس کے دو باپ نہیں ہو سکتے ( ابن کثیر)