وَلَنُذِيقَنَّهُم مِّنَ الْعَذَابِ الْأَدْنَىٰ دُونَ الْعَذَابِ الْأَكْبَرِ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ
اور یقیناً ہم انھیں قریب ترین عذاب کا کچھ حصہ سب سے بڑے عذاب سے پہلے ضرور چکھائیں گے، تاکہ وہ پلٹ آئیں۔
بڑے عذاب سے مراد قیامت کے دن جہنم کا عذاب ہے۔ اور عذاب الادنیٰ سے مراد دنیا میں پہنچنے والے مصائب ہیں جو انفرادی طور پر بھی ہر انسان کو دیکھنا پڑتے ہیں۔ مثلاً بیماریاں، مالی نقصان، عزیز و اقرباء کی موت یا کئی دوسرے حادثے اور اجتماعی زندگی کے مصائب الگ نوعیت کے ہوتے ہیں مثلاً قحط، زلزلے، وبا، فسادات اور لڑائیاں جن سے بیک وقت ہزاروں انسان لقمہ اجل بن جاتے ہیں۔ یہ اللہ کی طرف سے ہلکے ہلکے عذاب ہی نہیں بلکہ تنبیہات بھی ہیں کہ وہ بروقت سنبھل جائیں اور انھیں معلوم ہو جائے کہ ان سے بالاتر کوئی ہستی موجود ہے۔ جو ان کی بد اعمالیوں پر ان کی گرفت کر سکتی ہے اور اس سے انھیں اپنا عقیدہ اور عمل درست کرنے میں مدد ملے۔ اس طرح شاید وہ اپنی بد اعمالیوں سے اور آخرت میں انکے برے انجام سے بچ جائیں۔ (تیسیر القرآن)