سورة لقمان - آیت 32

وَإِذَا غَشِيَهُم مَّوْجٌ كَالظُّلَلِ دَعَوُا اللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ فَلَمَّا نَجَّاهُمْ إِلَى الْبَرِّ فَمِنْهُم مُّقْتَصِدٌ ۚ وَمَا يَجْحَدُ بِآيَاتِنَا إِلَّا كُلُّ خَتَّارٍ كَفُورٍ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اور جب انھیں سائبانوں جیسی کوئی موج ڈھانپ لیتی ہے تو اللہ کو پکارتے ہیں، اس حال میں کہ دین کو اس کے لیے خالص کرنے والے ہوتے ہیں، پھر جب وہ انھیں بچا کر خشکی کی طرف لے آتا ہے تو ان میں سے کچھ ہی سیدھی راہ پر قائم رہنے والے ہیں، اور ہماری آیات کا انکار نہیں کرتا مگر ہر وہ شخص جو نہایت عہد توڑنے والا، بے حد ناشکرا ہو۔

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

یعنی جب ان کی کشتیاں ایسی طوفانی موجوں میں گھر جاتی ہیں جو بادلوں اور پہاڑوں کی طرح ہوتی ہیں اور موت کا آہنی پنجہ ان کو اپنی گرفت میں لیتانظر آتاہے تو پھر سارے زمینی معبود ان کے ذہن میں سے نکل جاتے ہیں اور صرف ایک آسمانی الٰہ کو پکارتے ہیں جو واقعی اور حقیقی معبود ہے۔ (احسن البیان) مُّقْتَصِد کے دومفہوم:(۱)اعتدال پر قائم رہنے والا (۲)عہد کو پورا کرنے والا، یعنی بعض ایمان، توحید اور اطاعت کے اس عہد پر قائم رہتے ہیں جو موج گرداب میں انہوں نے کیاتھا۔ جیساکہ عکرمہ رضی اللہ عنہ بن ابوجہل کے متعلق سورۃ الانعام کی آیت نمبر۴۱ کے حاشیہ میں لکھاجا چکاہے۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ دہریے لوگ بھی اللہ سے انکار اور اللہ کے اقرار کی درمیان کی سطح پر آجاتے ہیں۔ کٹرمنکر نہیں رہتے ۔ یہی حال مشرکوں کاہوتاہے وہ اپنے معبودوں کی حاجت روائی اور مشکل کشائی کے بارہ میں شک میں پڑ جاتے ہیں یعنی مشرکوں کااپنے معبودوں پر پورا اعتقادنہیں رہتا۔ عہد شکن اور ناشکرے: جن لوگوں کی عادت ہی یہ ہو کہ خواہ ان پر انعامات کی کس قدر بارش کردی جائے انہوں نے شکر ادا کرنا یا احسان مان لینا سیکھاہی نہ ہو ایسے لوگ خطرہ ٹل جانے کے بعد پھر اپنے سابقہ طرز زندگی، یعنی کفر و شرک اور دہریت کی طرف پلٹ جاتے ہیں۔