فَأَقِمْ وَجْهَكَ لِلدِّينِ الْقَيِّمِ مِن قَبْلِ أَن يَأْتِيَ يَوْمٌ لَّا مَرَدَّ لَهُ مِنَ اللَّهِ ۖ يَوْمَئِذٍ يَصَّدَّعُونَ
پس تو اپنا چہرہ سیدھے دین کی طرف سیدھا کرلے، اس سے پہلے کہ وہ دن آئے جس کے ٹلنے کی اللہ کی طرف سے کوئی صورت نہیں، اس دن وہ جدا جدا ہوجائیں گے۔
لہٰذااے نبی!اوراے مسلمانو!مشرکوں کی ان تمام لغویات سے منہ موڑکردین فطرت کی طرف متوجہ ہوجاؤ کیونکہ ہرطرح کی خرابیوں اورفسادات کی جڑیہ شرک ہی ہے اس لیے اپنی تمام ترتوجہ اللہ کی طرف مبذول کرلواوراسی پرتوکل رکھو۔ موت اٹل حقیقت ہے: یعنی اسے کوئی بھی اپنے سے ٹال نہیں سکتا۔اورنہ اس کے وقت میں تقدیم وتاخیرہوسکتی ہے۔اسی طرح قیامت بھی ایک اٹل حقیقت ہے۔جونہ کسی کے ٹالے ٹل سکتی ہے۔ نہ اس میں تقدیم و تاخیر ہی ممکن ہے۔ اور ان دونوں حقیقتوں میں مناسبت یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہے کہ جوکوئی مرگیاتواسی دن اس کی قیامت قائم ہوگئی۔ باالفاظ دیگراس آیت کامطلب یہ ہے کہ اپنے مرنے سے پہلے پہلے ان شرکیہ عقائد سے کلیۃً دستبردار ہو کر دین فطرت کی طرف آجاؤ۔اس دن نیک اوربدعلیحدہ علیحدہ ہوجائیں گے: یعنی دوگروہوں میں تقسیم ہوجائیں گے ایک مومنوں کا دوسرا کافروں کا۔(تیسیرالقرآن)