ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ أَيْدِي النَّاسِ لِيُذِيقَهُم بَعْضَ الَّذِي عَمِلُوا لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ
خشکی اور سمندر میں فساد ظاہر ہوگیا، اس کی وجہ سے جو لوگوں کے ہاتھوں نے کمایا، تاکہ وہ انھیں اس کا کچھ مزہ چکھائے جو انھوں نے کیا ہے، تاکہ وہ باز آجائیں۔
فسادفی الارض کے اسباب: فسادسے مراد ہروہ بگاڑہے جس سے انسانوں کے معاشرہ اورآبادیوں میں امن وسکون تہ وبالااوران کے عیش و آرام میں خلل واقع ہو۔ خشکی سے مراد،انسانی آبادیاں، اور تری سے مرادسمندر،سمندری راستے اورساحلی آبادیاں ہیں۔ یعنی انسان ایک دوسرے پرظلم کررہے ہیں،اللہ کی حدوں کوپامال اوراخلاقی ضابطوں کوتوڑرہے ہیں اورقتل وخودیریزی عام ہوگئی ہے ۔اوراس کااطلاق ارضی وسماوی آفات پربھی ہوتاہے۔جواللہ کی طرف سے بطورسزاوتنبیہ نازل ہوتی ہیں جیسے قحط موت کی کثرت، خوف اورسیلاب وغیرہ مطلب یہ ہے کہ جب انسان اللہ کی نافرمانیوں کواپناوتیرہ بنالیں تو پھر مکافات عمل کے طورپر اللہ تعالیٰ کی طرف سے انسان کے اعمال وکردارکارخ بُرائیوں کی طرف پھرجاتا ہے۔ اورزمین فسادسے بھرجاتی ہے۔امن وسکون ختم اوراس کی جگہ خوف ودہشت لے لیتی ہے اور قتل وغارت گری عام ہوجاتی ہے۔اس کے ساتھ ساتھ بعض اوقات آفات ارضی وسماوی کابھی نزول ہوتاہے مقصد ان کایہی ہوتاہے کہ عام بگاڑیاآفات الہٰیہ کودیکھ کرشایدلوگ گناہوں سے باز آجائیں، توبہ کرلیں،اوران کارجوع اللہ کی طرف ہو جائے (احسن البیان) اس کے برعکس جس معاشرے کا نظام اطاعت الٰہی پر قائم ہو اللہ کی حدیں نافذ ہوں وہاں امن و سکوں اور اللہ کی طرف سے خیر و برکت کا نزول ہوتا ہے جیسا کہ ایک حدیث میں آتا ہے کہ زمین پرایک حدکاقائم ہونازمین والوں کے حق میں چالیس دن کی بارش سے بہترہے (نسائی: ۴۹۰۸) یہ اس لیے کہ حدقائم ہونے سے مجرم گناہوں سے بازرہیں گے اورجب گناہ نہ ہوں گے تو آسمانی اورزمینی برکتیں لوگو ں کوحاصل ہوں گی۔ (ابن کثیر)