وَمَا آتَيْتُم مِّن رِّبًا لِّيَرْبُوَ فِي أَمْوَالِ النَّاسِ فَلَا يَرْبُو عِندَ اللَّهِ ۖ وَمَا آتَيْتُم مِّن زَكَاةٍ تُرِيدُونَ وَجْهَ اللَّهِ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُضْعِفُونَ
اور جو کوئی سودی قرض تم اس لیے دیتے ہو کہ لوگوں کے اموال میں بڑھ جائے تو وہ اللہ کے ہاں نہیں بڑھتا اور جو کچھ تم زکوٰۃ سے دیتے ہو، اللہ کے چہرے کا ارادہ کرتے ہو، تو وہی لوگ کئی گنا بڑھانے والے ہیں۔
یعنی سودسے بظاہرمال میں اضافہ معلوم ہوتا ہے لیکن درحقیقت ایسانہیں ہوتا۔بلکہ اس کی نحوست بالآخر دنیا اور آخرت میں تباہی کا باعث بنتی ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما اورمتعددصحابہ وتابعین نے اس آیت میں (رِبًا) سے مرادسودنہیں،بلکہ وہ ہدیہ اورتحفہ لیاہے جوکوئی غریب آدمی کسی مال دار کو یا رعایا کا کوئی فرد بادشاہ یاحکمران کو،اورایک خادم اپنے مخدوم کواس نیت سے دیتاہے کہ وہ اس کے بدلے میں مجھے اس سے زیادہ دے گااسے (رِبًا) سے اس لیے تعبیرکیاگیاہے کہ دیتے وقت اس میں زیادتی کی نیت ہوتی ہے۔یہ اگرچہ مباح ہے لیکن اللہ کے ہاں اس کااجرنہیں ملے گا (فَلاَ یَرْبُوْاعِنْدَ اللّٰہِ)سے اس اخروی اجرکی نفی ہے۔اس صورت میں ترجمہ ہوگا کہ ’’جو تم عطیہ دو،اس نیت سے کہ واپسی کی صورت میں زیادہ ملے۔ پس اللہ کے ہاں اس کاثواب نہیں۔‘‘ زکوٰۃ وصدقات سے ایک تو مال میں روحانی ومعنوی اضافہ ہوتاہے۔یعنی بقیہ مال میں اللہ کی طرف سے برکت ڈال دی جاتی ہے۔(ابن کثیر،ایسرالتفاسیر) دوسرے قیامت والے دن،اس کا اجروثواب کئی کئی گناہ ملے گا جیسے ایک حدیث میں آتا ہے کہ حلال کمائی سے ایک کھجورکے برابر صدقہ بڑھ کراُحدپہاڑکے برابرہوجائے گا۔ (بخاری: ۱۴۱۰، مسلم: ۱۰۱۴)