وَرَسُولًا إِلَىٰ بَنِي إِسْرَائِيلَ أَنِّي قَدْ جِئْتُكُم بِآيَةٍ مِّن رَّبِّكُمْ ۖ أَنِّي أَخْلُقُ لَكُم مِّنَ الطِّينِ كَهَيْئَةِ الطَّيْرِ فَأَنفُخُ فِيهِ فَيَكُونُ طَيْرًا بِإِذْنِ اللَّهِ ۖ وَأُبْرِئُ الْأَكْمَهَ وَالْأَبْرَصَ وَأُحْيِي الْمَوْتَىٰ بِإِذْنِ اللَّهِ ۖ وَأُنَبِّئُكُم بِمَا تَأْكُلُونَ وَمَا تَدَّخِرُونَ فِي بُيُوتِكُمْ ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَةً لَّكُمْ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ
اور بنی اسرائیل کی طرف رسول ہوگا کہ بے شک میں تمھارے پاس تمھارے رب کی طرف سے ایک نشانی لے کر آیا ہوں کہ بے شک میں تمھارے لیے مٹی سے پرندے کی شکل کی مانند بناتا ہوں، پھر اس میں پھونک مارتا ہوں تو وہ اللہ کے حکم سے پرندہ بن جاتی ہے اور میں اللہ کے حکم سے پیدائشی اندھے اور برص والے کو تندرست کرتا ہوں اور مردوں کو زندہ کردیتا ہوں اور تمھیں بتا دیتا ہوں جو کچھ تم اپنے گھروں میں کھاتے ہو اور جو ذخیرہ کرتے ہو، بے شک اس میں تمھارے لیے ایک نشانی ہے، اگر تم مومن ہو۔
ابن کثیر رحمہ اللہ لكھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہر نبی کو اس کے زمانے اور حالات کے مطابق معجزے عطا فرمائے تاکہ اس کی صداقت اور برتری واضح ہوسکے۔ اللہ کے حکم سے: کہنے کا مقصد یہی ہے کہ کوئی شخص اس غلط فہمی کا شکار نہ ہوجائے کہ میں خدائی صفات یا اختیارات کا حامل ہوں، نہیں! میں تو اس کا عاجز بندہ اور رسول ہی ہوں یہ جو کچھ معجزات میرے ہاتھ پر ظاہر ہورہے ہیں یہ محض اللہ کے حکم سے صادر ہورہے ہیں۔ فن طب اور حضرت عیسیٰ: حضرت عیسیٰ کے زمانہ میں طب کافن اپنے عروج پر پہنچا ہوا تھا۔ بڑے بڑے حکمائے یونان بقراط و سقراط، اور ارسا طالیس نے اسی دور میں شہرت پائی تھی۔ لہٰذا حضرت عیسیٰ کو معجزات بھی ایسے عطا کیے جو اطبا کی دسترس سے باہر تھے۔ مثلاً مٹی سے پرندہ بناکر اُس میں پھونک مارتے تو وہ زندہ ہوکر اڑنے لگ جاتا ۔ مردوں کو کہتے کہ اللہ کے حکم سے اٹھ کر کھڑے ہوجا ؤ تو اٹھ کھڑے ہوتے اور باتیں کرنے لگتے، مادرزاد اندھے کی آنکھوں پر اور کوڑھی کے جسم پر ہاتھ پھیرتے تو وہ بالکل تندرست اور بھلے چنگے ہوجاتے۔ اور اندھوں کی بینائی لوٹ آتی۔ علاوہ ازیں وہ لوگوں کو یہ بھی بتلا دیتے کہ وہ کیا کچھ کھا کر آئے ہیں اور گھر میں باقی کیا چھوڑ کر آئے ہیں۔ اور یہ سب باتیں آپ کے منجانب اللہ رسول ہونے اور آپ کے پاک باز ہونے پر واضح دلائل ہیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں جادوگری کا بڑا زور تھا لہٰذا انھیں ایسا معجزہ عطا فرما یا گیا جس کے سامنے بڑے بڑے جادوگر اپنا کرتب دکھانے میں ناکام رہے جس سے ان پر حضرت موسیٰ کی صداقت واضح ہوگئی۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم : کے دور میں شعر و ادب اور فصاحت وبلاغت کا زور تھا، چنانچہ انھیں قرآن جیسا فصیح و بلیغ اور مبنی بر اعجاز کلام عطا فرمایا گیا جس کی نظیر پیش کرنے سے دنیا بھر کے فصحا و بلغا اور ادبا و شعراء عاجز رہے اور چیلنج کے باوجود آج تک عاجز ہیں اور قیامت تک عاجز رہیں گے۔ (ابن کثیر: ۱/ ۴۸۳)