فَإِذَا رَكِبُوا فِي الْفُلْكِ دَعَوُا اللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ فَلَمَّا نَجَّاهُمْ إِلَى الْبَرِّ إِذَا هُمْ يُشْرِكُونَ
پھر جب وہ کشتی میں سوار ہوتے ہیں تو اللہ کو پکارتے ہیں، اس حال میں کہ اسی کے لیے عبادت کو خالص کرنے والے ہوتے ہیں، پھر جب وہ انھیں خشکی کی طرف نجات دے دیتا ہے تو اچانک وہ شریک بنا رہے ہوتے ہیں۔
جب عکرمہ طوفان میں گھر گئے: یہ مشرکین بے بسی اوربے کسی کے وقت تواللہ تعالیٰ وحدہ لاشریک کوہی پکارتے ہیں۔ لیکن پھر مصیبت ہٹ جانے اورمشکل کے ٹل جانے کے بعداس کے ساتھ دوسروں کانام کیوں لیتے ہیں جیسے کہ ارشاد ہے: ﴿وَ اِذَا مَسَّكُمُ الضُّرُّ فِي الْبَحْرِ ضَلَّ مَنْ تَدْعُوْنَ اِلَّا اِيَّاهُ فَلَمَّا نَجّٰىكُمْ اِلَى الْبَرِّ اَعْرَضْتُمْ﴾ (بنی اسرائیل: ۶۷) ’’جب سمندرمیں مشکل میں پھنستے ہیں تو اس وقت اللہ کے سواسب کوبھول جاتے ہیں۔اورجب وہاں سے نجات پاکرخشکی میں آجاتے ہیں توفوراًہی منہ پھیرلیتے ہیں۔‘‘ سیرت ابن اسحاق میں ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ فتح کیاتوعکرمہ بن ابوجہل یہاں سے بھاگ نکلااورحبشہ جانے کے ارادے سے کشتی میں بیٹھ گیا رستے میں اتفاقاً سخت طوفان آیااورکشتی ادھراُدھرہونے لگی جتنے مشرکین کشتی میں تھے سب کہنے لگے یہ موقع صرف اللہ کوپکارنے کاہے۔اُٹھواوراللہ تعالیٰ سے خلوص کے ساتھ دُعائیں کرو۔ اس وقت نجات اسی کے ہاتھ میں ہے۔یہ سنتے ہی عکرمہ نے کہاسنو،اللہ کی قسم اگرسمندرکی اس بلاسے سوائے اللہ کے کوئی اورنجات نہیں دے سکتاتوخشکی کی مصیبتوں کا ٹالنے والابھی وہی ہے۔ اے اللہ! میں تجھ سے عہدکرتاہوں کہ اگریہاں سے بچ گیاتوسیدھاجاکرحضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پرہاتھ رکھ دوں گااورآپ کاکلمہ پڑھ لوں گا۔مجھے یقین ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم میری خطاؤں سے درگزرفرمائیں گے اور مجھ پررحم وکرم فرمائیں گے۔چنانچہ یہاں سے نجات پاکرانہوں نے اسلام قبول کرلیا۔ رضی اللہ عنہ (ابن کثیربحوالہ سیرت محمدبن اسحاق)