وَقَارُونَ وَفِرْعَوْنَ وَهَامَانَ ۖ وَلَقَدْ جَاءَهُم مُّوسَىٰ بِالْبَيِّنَاتِ فَاسْتَكْبَرُوا فِي الْأَرْضِ وَمَا كَانُوا سَابِقِينَ
اور قارون اور فرعون اور ہامان کو، اور بلاشبہ یقیناً ان کے پاس موسیٰ کھلی نشانیاں لے کر آیا، تو وہ زمین میں بڑے بن بیٹھے اور وہ بچ نکلنے والے نہ تھے۔
قارون ایک دولت مند شخص تھا جس کے بھرپور خزانوں کی کنجیاں ایک جماعت کی جماعت اٹھاتی تھی، فرعون مصر کابادشاہ تھااور ہامان اس کاوزیراعظم تھا اسی کے زمانے میں موسیٰ علیہ السلام نبی ہو کر اس کی طرف گئے تھے ۔ یہ دونوں قطبی کافر تھے جب ان کی سرکشی حد سے گزر گئی اور اللہ کی توحید کے منکر ہوگئے اور انھوں نے رسولوں کو ایذائیں دیں تو اللہ نے ان سب کو طرح طرح کے عذابوں سے ہلاک کیا۔ قوم عاد پر ہوائیں بھیجیں کیونکہ انھیں اپنی قوت و طاقت کابڑا گھمنڈ تھا ۔ ہوا جو بے حد تندو تیز تھی زمین سے پتھر اٹھا اٹھا کر ان پر برسانے لگی۔ بالآخر زور پکڑتے پکڑتے انھیں اُچک کر آسمانوں کے قریب لے جا کر پھر گرادیتی یہ لوگ سرکے بل گرتے اور ایسے ہو جاتے جیسے کھجور کے درخت، جس کے تنے الگ اور شاخیں جدا ہوں۔ قوم ثمود پر حجت الٰہی پوری ہوئی ان کو دلائل دیے گئے، ان کی طلب کے مطابق پہاڑ میں سے ان کے دیکھتے ہوئے اونٹنی نکلی۔ پھر بھی انھیں ایمان نصیب نہ ہوا بلکہ وہ طغیانی میں بڑھتے گئے چنانچہ اس سب کی سزا میں انھیں ایک چیخ نے پارہ پارہ کر دیا جس سے دل دہل گئے، کلیجے اُڑ گئے اور سب کی روحیں نکل گئیں۔ قارون نے سرکشی کی،تکبر کیا، طغیانی او ربڑائی کی ۔ رب اعلیٰ کی نا فرمانی کی، زمین میں فساد مچایا، اکڑ اکڑ کر چلنے لگا۔ اترانے لگا، پھولنے لگا، نہ تو یہ لوگ اپنی تدبیروں سے اللہ کی تدبیرکو ناکام بناسکتے تھے نہ اس کی گرفت سے بچ ہی سکتے تھے ۔